قرآن مجید میں ہے:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾
”بےشک اللہ تعالیٰ ان مؤمنوں سے بہت خوش ہوئے؛ جب وہ آپ سےبیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے اور ان کے دلوں میں جو کچھ (اخلاص اور عزم) تھا، اللہ تعالیٰ کو وہ بھی معلوم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اطمینان پیدا کر دیا تھا اور ان کو قریبی فتح بدلہ میں دی۔“ (سورۂ فتح، آیت نمبر: ۱۸)
غزوۂ احد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری
غزوۂ احد میں مسلمان چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم شہید بھی ہوئے اور بہت سے صحابہ میدان سے بھاگنے لگے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کفّار کے ایک جتھے کے بیچ میں آ گئے اور کفّار نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس خبر سے بہت پریشان حال تھے اور اسی وجہ سے بہت سے بھاگے بھی اور اِدھر اُدھر متفرق ہو گئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ جب کفّار نے مسلمانوں کو گھیر لیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میری نظر سے اوجھل ہو گئے، تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل زندوں میں تلاش کیا؛ لیکن میں نے ان کو نہ پایا، پھر میں نے ان کو شہداء میں جا کر تلاش کیا؛ لیکن وہاں بھی میں نے ان کو نہ پایا، تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی سے بھاگ جائیں، بظاہر حق تعالیٰ شانہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناراض ہوئے اس لئے انہوں نے اپنے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اٹھا لیا۔
چنانچہ میں نے سوچا کہ اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں سوائے یہ کہ میں بھی تلوار لے کر کافروں کے جتھے میں گھس جاؤں اور لڑوں؛ یہاں تک کہ مارا جاؤں؛ لہذا میں نے تلوار لے کر دشمن پر حملہ کیا؛ یہاں تک کہ کفّار بیچ میں سے ہٹنے لگے اور بھاگنے لگے اور میری نگاہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ گئی، تو جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو مجھے بیحد مسرّت ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ملائکہ کے ذریعہ سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی، میں فورا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھڑا ہوا؛ تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاع کر لوں؛ کیونکہ کفّار کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کے لئے آئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”علی ان کو روکو“۔ میں تنہا آگے بڑھا اور اس جماعت کا مقابلہ کیا اور اُن کے منھ پھیر دیئے اور بعضوں کو قتل کر دیا۔
اس کے بعد پھر ایک اور جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کی نیّت سے بڑھی اور قریب آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ سے فرمایا کہ ”علی ان کو روکو“۔ میں نے تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس جواں مردی اور مدد کی تعریف کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه منى وأنا منه
بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔
تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس پر عرض کیا:
وأنا منكما
میں تم دونوں سے ہوں۔
فائدہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت دیکھو ! جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دشمن کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا، تو انہوں نے دشمن کی صفوں میں جا کر اپنے آپ کو ڈال دیا اور ایسی بہادری کا مظاہرہ کیا کہ تن تنہا انہوں نے دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا؛ یہاں تک کہ دشمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے نہیں دیا اور ان کا نقصان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا دیا۔
اس واقعہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے پناہ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، الرقم: ۵۴۶، تاریخ الطبری، ج۲، ص۵۱۴، فضائل اعمال، ص۱۱۴)