طلاق کے بعض مسائل
(۱) طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور صرف شوہر طلاق دے سکتا ہے۔ بیوی طلاق نہیں دے سکتی ہے۔
البتہ اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حق دے دے، تو اس صورت میں بیوی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے؛ لیکن بیوی صرف اسی مجلس میں اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے جس مجلس میں اس کو طلاق دینے کا حق دیا گیا ہے، اگر وہ اپنے آپ کو اسی مجلس میں طلاق دے دے، تو طلاق واقع ہو جائےگی۔ [۱]
(۲) جب شوہر طلاق دے دے، تو طلاق فوراً واقع ہو جائےگی۔ اس کے بعد نہ شوہر طلاق کو منسوخ کر سکتا ہے اور نہ بیوی اس کو رد کر سکتی ہے۔۔ [۲]
(۳) جب شوہر طلاق کے الفاظ کہے، خواہ وہ لوگوں کے سامنے کہے یا وہ تنہائی میں کہے، خواہ وہ بیوی کی موجودگی میں کہے یا وہ اس کی عدمِ موجودگی میں کہے، تو ان تمام صورتوں میں سے ہر صورت میں طلاق واقع ہو جائےگی۔ [۳]
(۴) طلاق کے واقع ہونے کے لئے شرط نہیں ہے کہ شوہر گواہوں کی حاضری میں طلاق دے؛ لہذا اگر شوہر ایسی جگہ میں طلاق دے جہاں کوئی حاضر نہ ہو، تب بھی طلاق واقع ہو جائےگی۔ [٤]
(۵) اگر شوہر اپنی بیوی کو میسیج، خط، ایمیل یا اسکائپ وغیرہ کے ذریعہ طلاق دے، تو طلاق واقع ہو جائےگی۔ [۵]
(۶) اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے (مثلا وہ یوں کہے: میں نے تم کو تین طلاق دی یا تم کو تین طلاقیں ہیں یا میں تم کو تین طلاقیں دیتا ہوں)، تو اگر چہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے وہ گنہگار ہوگا؛ لیکن تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی، خواہ اس سے پہلے شوہر نے بیوی سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہ حکم چاروں مذاہب کے نزدیک ہے۔
(۷) اگر شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق متفرّق طور پر دے دے (مثلا وہ یوں کہے: تم کو طلاق ہو، تم کو طلاق ہو، تم کو طلاق ہو یا میں تم کو طلاق دیتا ہوں، میں تم کو طلاق دیتا ہوں، میں تم کو طلاق دیتا ہوں)، تو اگر اس سے پہلے شوہر نے بیوی سے صحبت کی ہو، تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
اگر اس سے پہلے شوہر نے بیوی سے صحبت نہ کی ہو، تو صرف پہلی طلاق واقع ہو جائےگی (یہ طلاق طلاق بائن ہوگی جس سے بیوی فوراً نکاح سے نکل جائےگی)۔ دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔
(۸) اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غصہ یا نشہ کی حالت میں طلاق دے دے، تو غصہ یا نشہ کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جائےگی۔
(۹) اگر بچہ یا مجنون شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو ان دونوں کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
(۱۰) اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالت اکراہ میں طلاق دے دے (یعنی وہ طلاق دینے پر مجبور ہوا یا جان یا مال سے اس کو دھمکی دی گئی؛ یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی)، تو اس اکراہ کی صورت میں بھی اگر وہ طلاق دے دے، تو اس کی طلاق واقع ہو جائےگی۔
(۱۱) شوہر کو صرف تین طلاق دینے کا حق ہے؛ لہذا اگر شوہر تین طلاق سے زیادہ طلاقیں دے، تو صرف تین طلاقیں واقع ہوں گی۔
(۱۲) تیسری طلاق دینے کے بعد بیوی شوہر کے لئے حرام ہو جائےگی؛ لہذا اس کے بعد دونوں کے لئے میاں بیوی کی طرح رہنا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ اگر دونوں دوبارہ ملنا چاہیں، تو حلالہ کرنا ضروری ہوگا۔
(۱۳) حلالہ کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ عورت عدّت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس سے ہمبستری کرے۔ اس کے بعد اگر یہ دوسرا شوہر اس عورت کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے، تو اس دوسرے نکاح کی عدّت گزارنے کے بعد عورت کے لیے سابق شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
(۱۴) اگر نکاح کے بعد شوہر نے اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور نہ اس نے اس کے ساتھ خلوت میں اتنا وقت گزارا کہ دونوں کے لیے ہمبستری کرنا ممکن تھا یا اس نے اس کے ساتھ خلوت میں اتنا وقت گزارا، جس میں دونوں کے لیے ہمبستری کرنا ممکن تھا؛ لیکن ہمبستری کرنے سے کوئی رکاوٹ موجود تھی، (مثلاً بیوی حیض کی حالت میں تھی یا کمرے میں کوئی شخص موجود تھا)، تو پھر ان صورتوں میں سے کسی صورت میں شوہر نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، تو اس طلاق سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور بیوی فوراً اس کے نکاح سے نکل جائےگی۔
اس کے بعد اگر دونوں دوبارہ ملنا چاہیں، تو دونوں مل سکتے ہیں؛ لیکن ایک نیا نکاح پڑھانا ہوگا نیا مہر کے ساتھ۔
(۱۵) اگر شوہر طلاق کو کسی شرط پر معلّق کرے، (مثلاً وہ اپنی بیوی سے کہے: اگر تم فلاں جگہ جاؤگی، تو تم کو طلاق ہے یا وہ کہے: اگر تم فلاں سے بات کروگی، تو تم کو طلاق ہے)، تو اس صورت میں جب شرط پائی جائے، تو بیوی پر طلاق واقع ہوگی۔
[۱] وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ (الدر المختار ۳/۲۳٠)
لأن الطلاق لا يكون من النساء (الدر المختار ۳/۱۹٠)
(قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي) تفويض (الطلاق) لأنها كناية فلا يعملان بلا نية (أو طلقي نفسك فلها أن تطلق في مجلس علمها به) (الدر المختار ۳/۳۱۵)
[۲] عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة (سنن الترمذي، الرقم: 1184، وقال: هذا حديث حسن غريب)
[۳] ويقع طلاق كل زوج إذا كان عاقلا بالغا (الهداية ۲/۳۵۸)
[٤] وفي البحر قيدنا الإشهاد بأنه خاص بالنكاح لقول الإسبيجابي: وأما سائر العقود فتنفذ بغير شهود ولكن الإشهاد عليه مستحب للآية (رد المحتار ۳/۲۱)
ومعلوم أن الإشهاد على الفرقة ليس بواجب بل هو مستحب (بدائع الصنائع ۳/۱۸۱)
[۵] وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة (الفتاوى الهندية ۱/۳۷۸)
[۶] والبدعة أن يطلقها ثلاثا أو ثنتين بكلمة واحدة أو في طهر لا رجعة فيه أو يطلقها وهي حائض فيقع ويكون عاصيا (الاختيار لتع المختار3/122)
إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها (الفتاوى الهندية 1/373)
[۷] ولا شك أن الإيقاع إن كان متفرقا يكون بالوقوع متفرقا لأن الوقوع على حسب الإيقاع لأنه حكمه والحكم يثبت على وفق العلة والدليل عليه أنه أوقع الثلاث في زمان ما بعد الشرط لأن الإيقاع هو كلامه السابق إذ لا كلام منه سواه وكلامه متفرق فإن قوله طالق كلام تام مبتدأ وخبر وقوله وطالق معطوف على الأول تابعا فيكون خبر الأول خبرا له كأنه قال أنت طالق وأنت طالق وأنت طالق وهذه كلمات متفرقة فيكون الأول متفرقا ضرورة فيقتضي الوقوع متفرقا وهو أن يقع الأول ثم الثاني ثم الثالث فإن لم تكن المرأة مدخولا بها فدخول الأول يمنع وقوع الثاني والثالث عقيبه لانعدام الملك والعدة (بدائع الصنائع 3/138)
[۸] ويقع الطلاق من غضب خلافا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش (الدر المختار 3/244)
وطلاق السكران واقع (الهداية 1/224)
صح … (أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا وبه يفتى تصحيح القدوري (الدر المختار 3/240)
[۹] ويقع طلاق كل زوج إذا كان عاقلا بالغا ولا يقع طلاق الصبي والمجنون والنائم (الهداية 1/224)
[۱۰] طلاق المكره واقع سواء كان المكره سلطانا أو غيره أكرهه بوعيد متلف أو غير متلف (المبسوط للسرخسي 24/40)