ازدواجی تنازعات کو ختم کرنا
جب میاں بیوی کے درمیان طلاق کے ذریعہ فرقت ہوتی ہے، تو اس وقت صرف دو افراد جدا نہیں ہوتے ہیں؛ بلکہ دو خاندانوں میں علیحدگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر میاں بیوی کے بچے ہوں، تو میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے بچے والدین کے درمیان بٹ جاتے ہیں اور اس کا منفی اثر بچوں کی زندگی پر پڑتا ہے۔
لہذا شوہر کو چاہیئے کہ طلاق کو سوچنے سے پہلے تمام جائز طریقوں سے ازدواجی تنازعات اور آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔
اگر بیوی کی طرف سے نشوز، زیادتی اور بے عنوانی ہو، تو اگر شوہر بیوی کے ساتھ بات کر کے خوش اسلوبی اور شفقت ومحبت کے ساتھ اس کی اصلاح کر سکتا ہے، تو شوہر کو بیوی کی اصلاح کرنی چاہیئے۔
اگر شوہر کی طرف سے زیادتی یا کوئی حد سے تجاوز بات ہو، تو اگر بیوی شوہر کے ساتھ بات کر کے خوش اسلوبی اور شفقت ومحبت کے ساتھ اس کو نصیحت کر سکتی ہے، تو بیوی کو اسے نصیحت کرنی چاہیئے؛ تاکہ وہ سدھر جائے اور راہِ راست پر آ جائے۔
اگر میاں بیوی کے لئے آپس میں صلح کرنا ممکن نہ ہو، تو ان دونوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے تنازعات اور اختلافات کے بارے میں خاندان کے کسی سمجھ دار اور بڑے آدمی سے بات کریں؛ تاکہ وہ میاں بیوی کو سمجھا سکے اور ان کے درمیان صلح کرا سکے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رشتہ داروں کے مقدمات کو ان ہی میں واپس کر دو؛ تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں، کیونکہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ وعداوت پیدا ہونے کا سبب ہوتا ہے (یعنی عدالت کا فیصلہ دونوں فریقوں میں سے ایک کے حق میں ہوگا اور اس میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا، تو دوسرے فریق کے دل میں نفرت پیدا ہوگی)۔
اگر میاں بیو ی کے درمیان صلح کی تمام جائز کوششیں ناکام ہو جائیں اور خاندان کا سمجھ دار اور بڑا آدمی بھی صلح کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے، تو میاں بیوی کو چاہیئے کہ وہ اپنا معاملہ کسی تیسرے فریق کے پاس لے جائیں (مثلاً اپنی مقامی جمعیّت وغیرہ) یا وہ خاندان کے علاوہ کسی تجربہ کار عالم سے رجوع کریں (مثلاً کسی معتبر عالم دین یا کسی مفتی جو ازدواجی تنازعات کو سلجھاتا ہو) اور ان سے آپس کے تنازعات اور اختلافات کو ختم کرائیں۔
اگر ان طریقوں کو اپنانے کے بعد آپس کے تنازعات اور اختلافات ختم نہ ہوں اور انہیں طلاق کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہ آوے، تو آخری شکل یہ ہے کہ شوہر اطمینان وسکون کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دے۔
[۱]