میّت کی جنازہ نماز اور تدفین میں تاخیر
سوال:- اگر کسی غیر ملکی شخص کا انتقال ہو جاوے اور اس کے اہل خانہ (جو اس کے ملک میں مقیم ہیں) اس کی لاش کا مطالبہ کریں، تو کیا ہمارے لئے اس کی لاش کو ان کی طرف بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہمارے ملک کا قانون یہ ہے کہ اگر ہم کسی کی لاش کو دوسرے ملک بھیجنا چاہیں، تو بھیجنے سے پہلے ضروری ہے کہ میّت کی رگوں میں کیمیکل داخل کیا جائے؛ تاکہ لاش بگڑ جانے اور سڑ جانے سے محفوظ رہے، تو کیا شریعت کی رو سے اس ملکی قانون پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:- شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے، تو جتنی جلدی ہو سکے اس کی تجہیز وتکفین کی جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ میّت کی تجہیز وتکفین میں تاخیر کرنا خلاف سنّت ہے اور ناجائز ہے۔
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ میّت کو اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے۔ اگر لاش کو کسی جگہ پر منتقل کرنا ہو، تو دیکھا جائے کہ لاش منتقل کرنے میں لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ ہے یا نہیں۔ اگر کسی دور جگہ کی طرف لاش کو منتقل کیا جائے اور اس میں لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ ہے، تو اس جگہ کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہو گا اور اگر وہ جگہ زیادہ دور نہ ہو اور لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ نہ ہو، تو لاش کو منتقل کرنا جائز ہوگا۔
البتہ میّت کی رگوں میں کیمیکل داخل کرنے کے بارے میں، تو شریعت کے رو سے یہ عمل خلاف سنّت ہے اور جائز نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس صورت میں میّت کو اسی جگہ (اسی ملک) میں دفن کیا جائے جہاں اس کا انتقال ہوا ہو۔
لاش کا غسل اور جنازہ نماز بیرون ملک بھیجنے سے پہلے
سوال:- اگر کسی غیر ملکی شخص کا انتقال ہو جاوے اور اس کے اہل خانہ (جو اس کے ملک میں مقیم ہیں) اس کی لاش کا مطالبہ کریں، تو پھر اگر ہم اس کی لاش کو ان کی طرف بھیج دیں، تو کیا بھیجنے سے پہلے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کو غسل دیں، اس کو کفن پہنائیں اور اس کی جنازہ نماز پڑھیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ جب میّت کی لاش اس کے گھر والوں تک پہونچ جائے، تو کیا ان پر واجب ہوگا کہ وہ دوبارہ اس کو غسل دیں اور اس کی جنازہ نماز پڑھیں؟
جواب:- ہاں، میّت کو غسل دیا جائے اور اس کی جنازہ نماز پڑھی جائے۔ جب ایک بار غسل دیا گیا اور جنازہ نماز پڑھی گئی، تو دوبارہ اس کو غسل نہیں دیا جائےگا اور اس کی جنازہ نماز نہیں پڑھی جائےگی۔
جنازہ نماز سے پہلےصفیں سیدھی کرنے کا حکم
سوال:- بسا اوقات جنازہ نماز میں بڑا مجمع ہوتا ہے اور جگہ محدود ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ بعض صفیں مکمل اور بعض صفیں ناقص رہتی ہیں۔ اگر تمام صفیں درست کی جائیں، تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پچھلی صفوں کے نمازیوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں اور پہلی صف سے صفیں درست کریں۔ اس طرح صفیں تو سیدھی ہو جائیں گی؛ لیکن لوگوں کو مشقّت ہوگی اور زیادہ وقت بھی صرف ہوگا، تو کیا یہ درست ہے کہ صفیں سیدھی کئے بغیر جنازہ نماز ادا کر لی جائے؟
جواب:- جس طرح عام نمازوں سے پہلے صفیں سیدھی کرنا انتہائی اہم ہے، اسی طرح جنازہ نماز سے پہلے بھی صفیں سیدھی کرنا بہت اہم ہے؛ لہذا جنازہ نماز سے پہلے بھی صفیں سیدھی کر لی جائیں، اگر چہ اس میں تھوڑا وقت صرف ہو۔
جنازہ نماز میں صفیں سیدھی کرنا
سوال:- بسا اوقات جنازہ نماز میں بڑا مجمع ہوتا ہے اور جگہ محدود ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ بعض صفیں مکمل اور بعض صفیں ناقص رہتی ہیں۔
اگر تمام صفیں درست کی جائیں، تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پچھلی صفوں کے نمازیوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں اور پہلی صف سے صفیں درست کریں۔ اس طرح صفیں تو سیدھی ہو جائیں گی؛ لیکن لوگوں کو مشقّت ہوگی اور زیادہ وقت بھی صرف ہوگا، تو کیا ایسی صورت میں یہ درست ہے کہ صفیں سیدھی کئے بغیر جنازہ نماز ادا کر لی جائے؟
جواب:-جس طرح عام نمازوں سے پہلے صفیں سیدھی کرنا انتہائی اہم ہے، اسی طرح جنازہ نماز سے پہلے بھی صفیں سیدھی کرنا بہت اہم ہے؛ لہذا جنازہ نماز پڑھنے سے پہلے بھی صفیں سیدھی کر لی جائیں، اگر چہ صفیں سیدھی کرنے میں تھوڑا وقت صرف ہو۔
قبرستان میں میّت کی تدفین کے دوران کیا پڑھا جائے
سوال:- قبرستان میں میّت کی تدفین کے انتظار کے دوران لوگوں کو کیا پڑھنا چاہیئے؟
جواب:- لوگوں کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے میّت کے لئے مغفرت کی دعا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ جب قبر میں میّت سے سوال کیا جائے، تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھیں۔
جنازہ اٹھاتے وقت کی دعا
سوال:- کیا کوئی خاص دعا ہے جو جنازہ اٹھاتے وقت پڑھنی چاہیئے؟
جواب:- جنازہ اٹھاتے وقت کی کوئی مسنون دعا حدیث شریف میں وارد نہیں ہوئی ہے؛ لہذا اس وقت لوگوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ جنازہ اٹھاتے وقت بلند آواز سے ذکر کرنا یا قرآن کریم پڑھنا مکروہ ہے۔
کس طرف سے تختوں کا رکھنا شروع کیا جائے؟
سوال:- جب میّت کو قبر میں رکھا جائے اور اس پر تختے رکھے جائیں، تو تختے رکھنے میں کس طرف سے شروع کیا جائے؟ کیا میّت کے سر کی طرف سے شروع کیا جائے یا پیر کی طرف سے؟ اس سلسلہ میں کیا مردوں اور عورتوں کے حکم میں کوئی فرق ہے؟
جواب:- جس طرح قبر کو بند کرنے کے لئے مٹی ڈالنا میّت کے سر کی طرف سے شروع کیا جاتا ہے، اسی طرح تختے رکھنے میں بھی میّت کے سر کی طرف سے شروع کیا جائےگا۔ یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے۔
پرانی قبروں میں میّت کا دفنانا
سوال:- کیا کسی پرانی قبر میں میّت کو دفنایا جا سکتا ہے یعنی کیا پرانی قبر دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہے، جبکہ قبرستان میں خالی جگہیں موجود ہوں؟ اگر جائز ہے تو کتنی مدّت کے بعد پرانی قبر کا دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جواب:- قبرستان میں خالی جگہیں موجود ہونے کے باوجود اگر کوئی پرانی قبر دوبارہ استعمال کی جائے تب بھی جائز ہے۔ جاننا چاہیئے کہ پرانی قبر کا دوبارہ استعمال کرنا اس وقت جائز ہوگا جبکہ اس سے پہلے میّت کے کچھ آثار باقی نہ رہیں(یعنی جو میت اس قبر میں اس سے پہلے دفنایا گیا تھا اس کے کچھ آثار باقی نہ رہیں)۔
اگر پہلے میّت کی ہڈیاں نظر آئیں، تو ان کو ہٹا کر قبر کے ایک طرف کر دیا جائے اور پھر میّت کو دوسری طرف دفنایا جائے؛ تاکہ کچھ حائل ہو ان ہڈیوں اور نئے میّت کے درمیان۔
میّت کو قبرستان لے جانا
سوال:- کیا میّت کو قبرستان لے جانے میں افضل طریقہ یہ ہے کہ میّت کو پیدل لے جایا جائے یا سواری کے ذریعہ لے جایا جائے؟
جواب:- افضل طریقہ یہ ہے کہ میّت کو پیدل قبرستان لے جایا جائے؛ لہذا اگر قبرستان قریب ہو، تو میّت کو پیدل قبرستان لے جانا چاہیئے؛ لیکن اگر قبرستان دوری پر ہو اور پیدل جانا مشکل ہو تو میّت کو سواری کے ذریعہ قبرستان لے جایا جائے۔
باغ یا بغیچہ میں مردہ پیدا ہوئے بچہ کی تدفین
سوال:- اگر کسی شخص کا بچہ مردہ پیدا ہوا، تو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ قبرستان چھوڑ کر وہ اس کو اپنے باغ یا بغیچہ میں دفن کرے؟
جواب:- مردہ بچہ کو قبرستان میں دفن کیا جائے۔ باغ یا بغیچہ میں دفن نہ کیا جائے۔
قبر کے ارد گرد اینٹیں لگانا
سوال:- کیا قبر کے ارد گرد اینٹوں یا پتھروں کا رکھنا جائز ہے؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس احاطہ میں کسی مردہ کی قبر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اینٹوں اور پتھروں کے ذریعہ سے قبر کی نشانی باقی رہے؟
جواب:- عام قبرستان میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے یہ خیال پیدا ہو جائے کہ یہ قبر اس مردہ کے لئے خاص ہے اور کسی دوسرے مردہ کا دفنانا اس میں جائز نہیں ہے؛ حالانکہ عام قبرستان میں تمام لوگوں کا برابر حق ہے؛ لہذا دوسرے مردوں کا اس قبر میں دفنانا بھی جائز ہے۔
سنّت طریقہ یہ ہے کہ قبر کو تھوڑا سا اونچا کیا جائے (ایک بالشت کے بقدر)؛ تاکہ یہ پہچانا جا سکے کہ یہ کسی مردہ کی قبر ہے۔ اتنی بات کافی ہے اور پوری قبر کے ارد گرد اینٹوں اور پتھوروں کو نہ رکھا جائے۔
دو میّتوں کو ایک قبر میں دفنانے کا حکم
سوال:- اگر کسی حادثہ میں ماں اور بچّے کا ایک ساتھ انتقال ہو جائے، تو کیا ایک قبر میں دونوں کو دفنایا جا سکتا ہے؟
جواب:- ایک قبر میں دو میّتوں کو نہیں دفنانا چاہیئے؛ بلکہ ہر میّت کو الگ قبر میں دفنایا جائے؛ البتہ ضرورت کے وقت اگر دو میّتوں کو ایک قبر میں دفنایا جائے، تو یہ جائز ہوگا۔
لہذا اس صورت میں جب ماں اور بچّہ ایک قبر میں دفنایا جائے، تو ماں اور بچّے کو الگ الگ کفن میں کفنایا جائے اور پھر ان دونوں کو ایک قبر میں اس طرح دفنایا جائے کہ دونوں کے درمیان مٹی کا حائل ہو؛ تاکہ دونوں کے جسم مل نہ جائیں۔
اگر میّت بچّہ ہو، تو اس کو قبلہ رُخ کر کے قبر میں پہلے رکھا جائے اور پھر اس کی ماں کو اس کے پیچھے رکھا جائے اور اگر میّت بچّی ہو، تو ماں کو قبلہ رُخ کر کے قبر میں پہلے رکھا جائے اور پھر بچّی کو اس کے پیچھے رکھا جائے۔
قبر پر کتبہ لگانے کا حکم
سوال:- کیا قبر پر کتبہ لگانا جائز ہے (یعنی ایسا کتبہ جس پر میت کا نام، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لکھی ہو)؟
جواب:- قبر کی علامت اور نشانی کے لئے پتھر رکھنا جائز ہے؛ البتہ پتھر پر میّت کی زندگی کی تفصیلات لکھنا (مثلًا میّت کی عمر، تاریخ پیدائش وغیرہ) دین میں ثابت نہیں ہے؛ لہذا ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم
سوال:- کیا تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا چاہیئے؟
جواب:- تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے، قبر پر پانی اس وجہ سے چھڑک لیا جائے؛ تاکہ قبر کی مٹی بیٹھ جائے اور منتشر نہ ہو جائے۔
Source:
[۱]