باغِ محبّت (ستائیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

بچہ کو اللہ تعالیٰ کا تعارف کرانا

بچہ کی تربیت انتہائی اہم ہے۔ بچہ کی تربیت کی مثال عمارت کی بنیاد کی طرح ہے۔ اگر عمارت کی بنیاد مضبوط اور پختہ ہو، تو عمارت بھی مضبوط اور پختہ رہےگی اور ہر طرح کے حالات برداشت کرےگی۔

اگر عمارت کی بنیاد کمزور ہو، تو وہ عمارت معمولی زلزلہ سے بھی گر جائےگی۔ اسی طرح بچہ کی تربیت ایک بنیاد ہے جس پر بچہ کی پوری زندگی کا دارو مدار ہے۔

بچہ کو دینی اور دنیوی ترقّی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو صحیح اسلامی تربیت دی جائے؛ لہذا اگر ماں باپ اپنے بچہ کو صحیح اسلامی تربیت نہ دیں اور وہ بچہ میں دینی صفات پیدا نہ کریں، تو اس کا نقصان بچہ کی زندگی میں ظاہر ہوگا۔

بچہ جب بڑا ہو جائے، تو اس کو اپنی گھریلو زندگی میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اور ان کی تربیت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی، نیز اپنی سماجی زندگی میں عزیز واقارب، پڑوسیوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اپنے بڑوں کا ادب واحترام کیسے کرے، دین کی تعظیم کیسے کرے، عام لوگوں کے ساتھ کس طرح رہے اور ان کے حقوق کس طرح سے پورا کرے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ بچہ کے صحیح تربیت نہ ملنے کی وجہ سے بچہ دینی اور دنیوی اعتبار سے پیچھے رہےگا اور نقصان اٹھائےگا۔ ایسا بچہ نہ دین میں ترقی کرےگا اور نہ دنیا میں کامیابی حاصل کرےگا۔

بچہ کو اسلامی تربیت ملنا یہ بچہ کا حق ہے اپنے والدین پر۔ ایک روایت میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے الله کے رسول ! بیٹے پر باپ کا کیا حق ہے ہمیں تو یہ معلوم ہیں؛ لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ باپ پر بیٹے کا کیا حق ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ (باپ پر بیٹے کا حق یہ ہے کہ) باپ اس کو اچھا نام دے اور اس کو اسلامی آداب سکھائے۔ (شعب الایمان)

ایک مرتبہ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ؛ کیونکہ تم سے تمہارے بیٹے (کی تربیت) کے بارے میں سوال کیا جائےگا کہ تم نے اس کو کیا ادب سکھایا اور اس کو کیا تعلیم دی؟ اور اس سے (تمہارے بیٹے سے) بھی سوال ہوگا کہ کیا اس نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا اور تمہاری اطاعت وفرماں برداری کی؟ (ان چیزوں کے بارے میں اس سے پوچھا جائےگا)۔ (شعب الایمان)

بچہ کی تربیت کے سلسلہ میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ بچہ کو الله تعالیٰ کا تعارف کرایا جائے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب بچہ پیدا ہو، تو اس کے دائیں کان میں اذان دی جائے اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔

یہ سب افعال اس وجہ سے کئے جاتے ہیں؛ تاکہ بچہ کا دل ایمان کی طرف پھیر دیا جائے اور بچہ کے دل میں الله تعالیٰ کی وحدانیت اور ان کی عظمت پیدا ہو جائے۔

غرض یہ کہ بچہ کا دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلی چیز جس سے بچہ کو تعارف کرایا جاتا ہے وہ الله تعالیٰ ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے فعل سے امّت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کھانے سے پہلے بسم الله پڑھنا سکھائیں؛ تاکہ انہیں یہ معلوم ہوں کہ جو کھانا وہ کھا رہے ہیں وہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ الله تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔

حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا، تو ایک مرتبہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، تو اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے بچہ ! بسم الله پڑھ لیا کرو اور دائیں ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں اس جگہ سے کھایا کرو جو تجھ سے نزدیک ہو۔ (بخاری شریف)

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کو تین سنتیں سکھائیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو یہ بھی سکھایا کہ کھاتے وقت انسان کو چاہیئے کہ وہ الله تعالیٰ کو یاد کرے اور ان کا نام لے کر ان کا حق پورا کرے؛ نیز ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اس قدر محبت اور شفقت سے سکھایا کہ یہ سبق ان کے دل میں راسخ ہو گیا؛ لہذا وہ فرماتے ہیں کہ اس دن سے میں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ میں ہمیشہ اس طریقہ سے کھانا کھاؤں گا، جس طریقہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے سکھایا تھا۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امّت کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اولاد کو الله تعالیٰ کے حقوق پورا کرنے کی اہمیت سکھائیں۔

الله تعالیٰ کے تمام حقوق میں سب سے اہم ترین حق ”نماز“ ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تمہارے بچے سات سال کی عمر کو پہونچیں، تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کی عمر کو پہونچیں، تو اگر وہ نماز نہ پڑھیں، تو انہیں مارو (اور ان کو نماز پڑھنے پر زور لگاؤ)۔ (مسند احمد)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ اگر چہ بچہ چھوٹا ہے اور ابھی تک اس پر نماز فرض نہیں ہوئی ہے؛ مگر بچہ کے دل میں نماز کی اہمیت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم اس کو نماز کا حکم کریں؛ تاکہ آگے چل کر یہ بچہ اپنی پوری زندگی میں نماز پر قائم رہےگا۔

اسی طرح ہم اپنی اولاد کے دلوں میں بچپن ہی سے الله تعالیٰ کی بڑائی، عظمت اور قدرت کا استحضار پیدا کریں؛ تاکہ اولاد اس بات کو سمجھ سکیں کہ ساری بھلائیاں صرف الله تعالی کی طرف سے ہیں اور الله تعالیٰ کے سوا کوئی طاقت والا اور قدرت والا نہیں ہے۔

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے ! میں تمہیں چند اہم باتیں سکھانا چاہتا ہوں، تم الله کی حفاظت کرو (ان کے احکام کی حفاظت کرو) الله تمہاری حفاظت کریں گے۔ تم الله کی حفاظت کرو (ان کے احکام کی حفاظت کرو)، تم اسے اپنے سامنے پاؤگے (یعنی وہ تمہارے ساتھ ہوں گے اور تمہاری ضروریات کو پوری کریں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے) اور جب تم کوئی چیز مانگو، تو صرف الله سے مانگو اور جب تم مدد طلب کرو، تو صرف الله سے مدد طلب کرو۔ اور تم یہ بات جان لو کہ اگر پوری امّت اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کچھ نفع پہونچائیں، تو وہ تجھے کچھ بھی نفع نہیں پہونچا سکیں گی؛ مگر اتنا نفع جتنا الله نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو کر تجھے نقصان پہونچانا چاہیں، تو وہ تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہونچا سکیں گی، مگر اتنا نقصان جتنا الله نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ (تقدیر کے) قلم اٹھا لئے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو چکے ہیں (یعنی الله تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ مقرر کیا گیا ہے وہ ہو کر رہےگا اور الله تعالیٰ کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی)۔ (سنن ترمذی)

اس حدیث شریف سے ہمیں معلوم ہوا کہ آپ صلی علیہ وسلم نے کس پیارے اور موثر انداز سے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کے دل میں الله تعالی کی عظمت پیدا کرنے کی کوشش کی اور کیسے آپ صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ سے ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش فرمائی۔

الله تعالیٰ ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17921


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …