سورۃ الکافرون کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

 قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُونَ ﴿۱﴾‏‏‏ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿۲﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۳﴾‏ ‏وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿۴﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۵﴾‏‏‏ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿۶﴾‎ ‏‏‏

آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کافرو(۱) نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں(۲) اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو(۳)  اور نہ (مستقبل میں ) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا(۴) اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کروگے(۵) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔

سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون دو مہتم بالشان سورتیں ہیں اور ان دونوں کی بہت سے فضیلتیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور مغرب کی سنّتوں میں یہ دو سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابۂ کرام کو سونے سے پہلے سورۂ کافرون پڑھنے کی تلقین وترغیب فرمائی اور فرمایا کہ اس سورت کا پڑھنا شرک سے براءت ہے۔ (ابو داؤد)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نماز کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچھوّ نے کاٹ لیا، تو آپ نے پانی اور نمک منگایا اور یہ پانی کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُونَ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سورتوں کی برکت سے شفا ملی۔

شان نزول

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ قریش نے مصالحت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ صورت پیش کی کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ سارے مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ہو جائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں، آپ کا نکاح کر دیں۔ آپ صرف اتنا کریں کہ ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہیں مانتے، تو ایسا کریں کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کیا کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کیا کریں۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی عبادت کیا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہم شرک سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ تو قریش نے دوسری صورت پیش کی کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں، تو ہم آپ کی تصدیق کرنے لگیں گے۔ اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام سورۂ کافرون لے کر نازل ہوئے۔

خلاصہ یہ ہےکہ کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین چیزیں پیش کیں:

پہلی چیز: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کو برا نہ کہا کریں۔

دوسری چیز: دونوں ایک دوسرے کے معبود کی پرستش کریں یعنی ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کی پرستش کریں اور ایک سال وہ (کفار مکہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود کی پرستش کریں۔

تیسری چیز: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معبودوں کو صرف ہاتھ لگا دیں۔

لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے منع فرما دیا۔

کھلم کھلا اعلان

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے علی الاعلان واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کو کسی بھی صورت میں کفار کے دین کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کھلم کھلا کفار کے افعا ل کی مذمّت کی ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اسی طرح سے کہ اس میں کسی قسم کا شرک نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی باتوں پر عمل کرنے سے اس لئے منع فرما دیا کہ دین اسلام ہر اعتبار سے ایک کامل اور جامع دین ہے، جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت، ان کی عبادت اور صرف ان کی اطاوت وفرماں برداری پر مبنی ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کو کسی بھی دوسرے مذہب ودین کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا ہے ؛کیونکہ دین اسلام کا مدار اور بنیاد یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ تعالیٰ کو مانیں اور ان پر ایمان رکھیں ان کی ذات وصفات کے ساتھ اور ہم صرف ان کی اطاعت کریں۔ جب کہ دیگر مذاہب کی بنیاد کفر وشرک اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت پر ہے۔

قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُونَ ﴿۱﴾‏‏‏ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿۲﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۳﴾‏ ‏وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿۴﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۵﴾‏‏‏

آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کافرو (۱) نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں (۲) اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو (۳) اور نہ (مستقبل میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا (۴) اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کروگے (۵)

ان آیتوں کو دیکھ کر بظاہر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئےگا کہ ان میں تکرار ہے؛ لیکن پہلی دو آیتوں اور دوسری دو آیتوں کے معنی میں کچھ فرق ہے۔

پہلی دو آیتوں کا تعلق زمانۂ حال سے ہے اور دوسری دو آیتوں کا تعلق زمانۂ استقبال سے ہے یعنی ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے کہ ابھی ہم ان چیزوں (بتوں) کی عبادت نہیں کرتے ہیں جن کی عبادت تم کرتے ہو اور نہ آئندہ ہم ان چیزوں (بتوں) کی عبادت کریں گے جن کی عبادت تم کرتے ہو؛ لہذا تم ہم سے اس بات کی توقع مت رکھو کہ تم جن چیزوں کی عبادت کرتے ہو، ہم اس میں تمہاری پیروی کریں گے۔

اس تفسیر کے مطابق (کہ پہلی دو آیتوں کا تعلق زمانۂ حال سے ہے اور دوسری دو آیتوں کا تعلق زمانۂ استقبال سے ہے) چاروں آیتوں میں ”ما“ موصولہ ہے یعنی عبادت کی چیز؛ لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور تم بتوں کی عبادت کرتے ہو۔

ان آیتوں کی دوسری تفسیر جو علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کی ہے و ہ یہ ہے کہ حرف ”ما“ پہلی دو آیتوں میں (یعنی لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ) ”ما“ موصولہ ہے اور دوسری دو آیتوں میں (یعنی ‏وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ‎﴿﴾‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ) ”ما“ مصدریہ ہے۔

اس کے مطابق پہلی دو آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا ہوں جن کی عبادت تم کرتے ہو اور تم اس ذات (اللہ تعالیٰ) کی عبادت نہیں کرتے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور دوسری دو آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اور تمہاری عبادت کے طریقے بالکل الگ الگ ہیں کہ میں اس طریقہ سے عبادت نہیں کرتا ہوں جس طریقہ سے تم عبادت کرتے ہو اور تم اس طریقہ سے عبادت نہیں کرتے ہو جس طریقہ سے میں عبادت کرتا ہوں۔

اس تفسیر کے مطابق دوسرے لفظوں میں ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ پہلی دو آیتوں میں محلِ عبادت کا اختلاف بتایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور تم بتوں کی عبادت کرتے ہو اور دوسری دو آیتوں میں طریقۂ عبادت کا اختلاف بتایا گیا ہے یعنی تمہارا طریقۂ عبادت ہمارے طریقۂ عبادت سے بالکل الگ ہے؛ لہذا جب تک تم اپنے باطل طریقہ پر قائم رہوگے، مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں راہ حق سے منھ موڑ کر تمہارے غلط طریقۂ عبادت کو اختیار کروں گا اور نہ میں امید رکھوں گا کہ تم میرے طریقۂ عبادت کی پیروی کروگے؛ کیونکہ ہماری اور تمہاری عبادت کے طریقے بالکل جدا ہیں۔ ان میں مصالحت وموافقت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ یہ آیتیں واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلام کا راستہ پاکیزگی اور تقوی کا راستہ ہے، صرف اللہ تعالیٰ کو ماننے اور اس کی عبادت کرنے کا راستہ ہے اور بغیر کسی انحراف کے اللہ تعالیٰ کی باتوں کی اطاعت وفرماں برداری کرنے کا راستہ ہے۔

اس کے بر عکس شرک وکفر کا راستہ اسلام کے راستے سے بالکل مخالف وجدا ہے؛ کیونکہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی پر ایمان لانے اور کسی کی بھی عبادت کرنے اور کسی کے حکم ماننے (جب وہ حکم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ شرک وکفر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کو ماننے اور قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم کے راستے ہر لحاظ سے مختلف ہیں؛ لہذا کسی مسلمان کے لئے ہرگز درست نہیں ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں غیر مسلموں کے طریقوں پر چلے اور ان کی پیروی کرے، خواہ ان کی عبادتوں میں یا ان کے رسوم ورواج میں یا ان کے رہن سہن میں یا ان کے وضع قطع میں یا ان کے فیشن میں یا ان کے تقریبات وشادی بیاہ میں یا ان کے تجارت کے حرام طریقوں میں یا ان کی زندگی کے طور وطریقہ میں۔

اس سورت کا پیغام یہ ہےکہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں، ہم صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کریں اور دینی اور دنیوی زندگی کے تمام شعبوں میں ہم بغیر کسی شک وشبہ کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کریں۔

نیز مؤمن کافر کی طرح نہیں ہوتا جو زمانہ کے ساتھ چلتا ہے اور موقع کے ساتھ بدلتا ہے؛ بلکہ مؤمن تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہتا ہے؛ لہذا اس کی زندگی پر سال کے کسی بھی وقت اور ماحول کا اثر نہیں پڑتا ہے، خواہ وہ اپنے وطن میں ہو یا وطن سے باہر چھٹی کے ایّام گزارنے کے لئے گیا ہو، گھر میں ہو یا گھر سے باہر سماجی اور کاروباری زندگی میں ہو، وہ ہر وقت دین پر چلتا ہے اور دینی احکامات پر ثابت قدم رہتا ہے؛ کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت مستحضر رہتی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک دن اپنی زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا۔

سچّے مؤمن کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت میں کفار کے رسوم ورواج سے متأثر نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ وہ جہاں بھی جاتا ہے اور جس سے بھی ملتا ہے وہ اس کے سامنے اسلام کی صحیح صورت پیش کرتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی حال تھا کہ اسلام کی صفات ان میں اور ان کی زندگیوں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے وہ دنیا میں جہاں بھی گئے وہ کامیاب ہو گئے اور ان کو دیکھتے ہی لوگوں کے قلوب اسلام کی طرف مائل ہو جاتے تھے۔

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿۶﴾‎

تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔

لفظ ”دین“ مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک معنی ہے”مذہب“۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک آیت کریمہ میں یہی معنی راجح ہے یعنی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔

لفظ دین کا دوسرا معنی ہے”طریقہ“۔ اس کے مطابق آیت کریمہ کا ترجمہ یوں ہوگا کہ تمہارے لئے تمہارا طریقہ ہے اور میرے لئے میرا طریقہ ہے۔

دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو اور تمہیں اپنے اعمال کا بدلہ ملےگا اور میں اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوں اور مجھے اپنے اعمال کا بدلہ ملےگا یعنی ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کا انجام خود بھگتنا پڑےگا۔

کفار کے ساتھ موالات اور دوستی کرنا

اس سورت سے ایک اہم سبق جو ہمیں ملتا ہے یہ ہے کہ کسی مؤمن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے دینی اصولوں اور اپنے دینی تعلیمات اور شریعت کے احکام کی مخالفت کرے؛ کیونکہ قرآن مجید کی متعدّد آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ موالات اور دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ

اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ۔

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوْا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِيْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِينَ

اے ایمان والو ! یہود ونصاری کو دوست مت بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرےگا، تو وہ انہی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

ان دو آیتوں سے ہمیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ موالات اور دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اسی طرح حدیث شریف میں بھی کفّار کے ساتھ دوستی کرنے سے ممانعت آئی ہے کہ ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف ایمان والوں کے ساتھ دوستی کریں۔

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ

لا تصاحب إلا مؤمنا

                مؤمن کے علاوہ کسی اور سے دوستی نہ رکھو۔

شریعت میں ایمان والون کے لئے کفار کے ساتھ دوستی کرنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اگر مؤمن کفّار کے ساتھ دوستی اور تعلق رکھے، تو ضرور بالضرور وہ کفّار کی طرزِ زندگی سے متأثر ہو کر ان کے اطوار وعادات، افکار وخیالات، اقدار ورویّات اور کپڑوں کی نقل کرےگا۔

بالآخر اس دوستی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مؤمن اپنی دینی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائےگا اور وہ اپنے فرائض وواجبات کو (جو اللہ تعالیٰ کے لئے اور مخلوق کے لئے) پورا نہیں کرےگا یا ان میں کوتاہی کرےگا۔

لہذا جب کوئی مؤمن کافروں اور ان کے اطوار وعادات کی طرف مائل ہو، تو وہ ان کی طرح زندگی گزارنا شروع کرےگا اور بالآخر وہ اپنی اسلامی اطوار وعادات کو ترک کر دےگا۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ اگر چہ شریعت میں ہمیں کافروں کے ساتھ دوستی اور موالات سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن دوسری طرف ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ہم ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کریں۔ اسی طرح ہمارے لئے ان کے ساتھ تجارت وغیرہ کرنا جائز ہے؛ بشرطیکہ ہم شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے معاملہ کریں اور ہم ان سے دوستی کر کے ان سے بہت زیادہ قریب نہ ہو جائیں۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ ہم کافروں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم ان پر ظلم نہ کریں اور ان کے حقوق پورا کرنے میں کوتاہی نہ کریں؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان کی طرزِ زندگی سے متأثر نہ ہو جائیں اور ان کے طورو طریق کو اختیار نہ کریں؛ بلکہ ہم دین پر قائم رہیں اور دین کے کسی حکم میں تساہل نہ برتے۔

Check Also

سورہ فلق کی تفسیر

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن …