ماہ محرم اور عاشوراء

الله تعالیٰ کا نظام ہے کہ انہوں نے بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر خصوصی فضیلت اور اہمیت دی ہے۔

چنانچہ انسانوں میں سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دیگر لوگوں پر فوقیت اور خاص فضیلت دی گئی ہے۔

دنیا کے دیگر خطوں کی بنسبت حرمین شریفین اور مسجدِ اقصیٰ کو خصوصی عظمت اور انتہائی عظیم مقام اور تقدس عطا کیا گیا ہے۔

سال کے بارہ مہینوں میں سے ماہ رمضان اور چار مقدس مہینوں: محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

اسی طرح عاشورہ کے دن کو سال کے دوسرے دنوں کے مقابلہ میں خصوصی فضائل عطا کیے گئے ہیں اور یہ دن بے پناہ برکتوں کا حامل ہے۔

جس طرح ماہِ ذی الحجہ کو یہ عظمت و برتری حاصل ہے کہ اس کو مناسکِ حج کی ادائیگی اور قربانی کے لیے منتخب کیا گیا ہے، اسی طرح ماہِ محرم کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کو “شہر الله” (الله تعالیٰ کا مہینہ) کا نام دیا گیا ہے اور اسی مہینہ میں عاشوراء کا روزہ رکھا جاتا ہے۔

 یومِ عاشوراء کی بے پناہ فضیلت و عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم انتہائی شوق اور وارفتگی سے اس کی آمد کا انتظار فرماتے تھے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره إلا هذا اليوم يوم عاشوراء(صحيح البخاري، الرقم: ۲٠٠٦)

حضر ت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کسی بھی فضیلت والے دن کے روزہ کا اس قدر انتظار کرتے نہیں دیکھا جس قدر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عاشوراء کے روزہ کا انتظار کرتے دیکھا۔

ماہ محرم کے فضائل

(۱) ماہ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ بہت سے محدّثین کرام کی رائے یہ ہے کہ ماہ محرم چار مقدس مہینوں میں سب سے افضل اور مبارک مہینہ ہے۔

حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز وہ نماز ہے جو رات کے آدھے حصہ میں پڑھی جائے (یعنی تہجد کی نماز) اور ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل مہینہ”ماہ محرم“ ہے۔“ (لطائف المعارف، ص ۷۹)

(۲) قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماہ محرم کی پہلی صبح کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْفَجْرِ﴿۱﴾

قسم ہے فجر کی (۱)

حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس فجر پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اس فجر سے مراد ماہ محرم کی پہلی فجر ہے (یعنی پہلی صبح)، کیونکہ یہ صبح صرف اس دن کی صبح نہیں ہے؛ بلکہ وہ آنے والے پورے سال کی پہلی صبح ہے۔ (لطائف المعارف، ص۳۵)

(۳) ماہ محرم کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ محرم کے پہلے دس دنوں کی، ماہ محرم کے بقیہ دنوں سے زیادہ فضیلت ہے، جس طرح ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی، ذی الحجہ کے بقیہ دنوں سے زیادہ فضیلت ہے اور جس طرح ماہ رمضان کے آخری دس دنوں کی، ماہ رمضان کے دوسرے دنوں سے زیادہ فضیلت ہے۔

حضرت ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (مقدس مہینوں میں سے) تین مہینوں کے دس دنوں کو (مقدس مہینوں کے دوسرے دنوں کے مقابلہ میں) زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کی خوب تعظیم کرتے تھے (یعنی وہ ان دنوں میں عبادات وغیرہ کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے)۔ (یہ تین دس دن) رمضان المبارک کے آخری دس دن، ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن اور ماہ محرم کے پہلے دس دن ہیں۔ (لطائف المعارف، ص۳۵)

ماہ محرم کی سنتیں اور آداب

(۱) ماہ محرم کے آغاز میں مسنون دعا سیکھیں اور اس کو پڑھیں۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مندرجہ ذیل دعا سیکھتے تھے اور اس کو نئے اسلامی سال (محرم کے آغاز میں) یا نئے اسلامی ماہ کے آغاز میں پڑھتے تھے:

اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَارٍ مِّنَ الشَّيْطَان

اے اللہ ! اس کو (اس نئے ماہ یا نئے سال کو) ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی اور اسلام، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور شیطان سے حفاظت کے ساتھ داخل کیجیے۔ (المجمع الاوسط، الرقم ۶۲۴۱)

(۲) ماہ محرم میں کثرت سے نیک اعمال کریں؛ اس لئے کہ ماہ محرم چار مقدس مہینوں میں سے ہے اور ان مہینوں میں جو نیک اعمال کئے جاتے ہیں ان کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (سال کے تمام دوسرے مہینوں میں سے) چار مہینوں کو (حرمت اور فضیلت سے) مخصوص بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدس بنایا ہے اور ان کی برکات میں اضافہ فرمایا ہے (یعنی ان کو خصوصی شرف وعظمت عطا فرمایا ہے) اور ان مہینوں میں گناہ کے ارتکاب کو زیادہ سخت بنایا ہے اور ان مہینوں میں نیک کاموں کے ثواب کو زیادہ کیا ہے۔ (لطائف المعارف، ص ۲۲۲)

(۳) اشہر حرم (چار مقدس مہینوں) میں گناہوں سے اجتناب کریں؛ کیونکہ ان چار مقدس مہینوں میں گناہوں کی شدّت بڑھا دی جاتی ہے، جس طرح نیک اعمال کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡهِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ

تو ان میں (ان چار مقدس مہینوں میں) اپنے آپ پر (گناہ کر کے) ظلم مت کرو۔

حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

بے شک اشہر حرم (چار مقدس مہینوں) میں بُرائی کا ارتکاب دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ سخت ہے اور زیادہ گناہ کے باعث ہے۔ اگر چہ گناہ ہر وقت میں بہت بُری چیز ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتے ہیں اس کو عظمت اور شرف میں بڑھا دیتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ۴/۱۴۸)

(۴) اس مبارک مہینہ میں کسی کو تکلیف نہ پہونچائیں اور کسی سے جھگڑا نہ کریں، کیونکہ ان برے اعمال کی وجہ سے انسان اس مہینہ کی خیر وبرکت سے محروم ہو جاتا ہے۔

(۵) ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی کوشش کریں، کیونکہ اس مہینہ میں ہر روزہ کا ثواب ایک مہینہ کے نفل روزہ کے ثواب کے برابر ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) کا روزہ رکھے، اس کے دو سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور جو شخص ماہ محرم میں روزہ رکھے، تو اس کو ہر روزہ کے بدلے مکمل تیس دن (ایک پورا مہینہ) نفل روزہ رکھنے کا ثواب ملےگا۔ (المجمع الصغیر، الرقم ۹۶۳)

(۶) دسویں محرم عاشوراء کا دن ہے۔ اس دن روزہ رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنّتوں میں سے ہے۔ عاشوراء کے دن میں روزہ رکھنے کا ثواب یہ ہے کہ گزشتہ سال کے صغیرہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے دن میں روزہ  رکھنے (کی فضیلت) کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاشوراء کا روزہ پچھلے سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم ۱۱۶۲)

(۷) دسویں محرم میں (یعنی عاشوراء کے دن میں) روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دسویں محرم کے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھیں (یعنی نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھیں یا دسویں محرم اور گیاہویں محرم کو روزہ رکھیں) اور یہود کی مخالفت کریں (یعنی نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھیں یا دسویں محرم اور گیاہویں محرم کو روزہ رکھیں؛ کیونکہ یہود صرف دسویں محرم کو روزہ رکھتے ہیں)۔

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو (چوں کہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں، لہذا ایک اور دن روزہ رکھنے سے ان کی مخالفت کرو) اور عاشوراء سے پہلے یا عاشوراء کے بعد ایک اور دن روزہ رکھو (یعنی نویں محرم اور دسویں محرم کو یا دسویں محرم اور گیارہویں محرم کو روزہ رکھو)۔ (سنن الکبری، الرقم ۸۴۰۶)

(۸) عاشوراء کا روزہ بہت سے فضائل وبرکات کا حامل ہے۔ عاشوراء کے روزہ کے فضائل کے ساتھ ساتھ عاشوراء سے ہمیں ایک انتہائی اہم سبق ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی طور وطریقہ پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیئے اور کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں کی مشابہت سے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہیئے۔ لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہود کی مخالفت کرنے کے لیے اور ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے دو دن (نو، دس یا دس، گیارہ محرم) کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

روزہ ایک عبادت ہے؛ لیکن اس کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہود کی مشابہت کے بنا پر ایک دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ اس سے ہم اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کس قدر ناگوار ہوگا کہ ان کی امّت کپڑے پہننے، اوڑھنے، کھانے پینے اور زندگی کے دیگر امور میں کافروں کی نقل اور مشابہت  اختیار کریں اور ان کے طرزِ حیات کو اپنائیں۔

(۹) عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھلانے پلانے میں اور ان پر خرچ کرنے میں وسعت کریں، عاشوراء کے دن اپن اہل وعیال پر خرچ کرنے کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پورے سال آپ کے رزق میں وسعت اور برکت عطا فرمائیں گے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر فراخ دلی سے خرچ کرےگا، الله تعالیٰ اس کو پورے سال روزی میں خوب برکت عطا فرمائیں گے۔“ (شعب الایمان، الرقم ۳۵۱۵)

(۱۰) عاشوراء کے دن بدعات وخرافات سے اجتناب کریں۔ مثلا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر نوحہ کرنا جیسے اہل تشیع اور روافض کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت تاریخِ اسلام کا انتہائی المناک سانحہ اور دردناک واقعہ ہے، مگر یہ بات سمجھنا چاہیئے کہ عاشورہ کے فضائل وبرکات کا سیدنا حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ عاشورہ کے دن کو ساری فضیلتیں اس وقت سے حاصل ہیں، جب کہ حضرت حسین رضی الله عنہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت پر گریہ وزاری، سینہ پیٹنا اور ماتم جو کہ شیعہ کرتے ہیں یہ سب خرافات ہیں اور اسلام میں ان چیزوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

Check Also

دعا کی سنتیں اور آداب – ۷

(۱۷) بہتر یہ ہے کہ جامع دعا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں …