اضطباع اور رمل
عمرہ کے طواف میں مرد اضطباع اور رمل کرےگا۔
اضطباع یہ ہے کہ طواف کرنے والا مرد احرام کی چادر کو دائیں بغل میں سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لےگا اور داہنا کندھا کھلا چھوڑےگا۔ پورے طواف میں (یعنی ساتوں چکروں میں) مرد اضطباع کرےگا۔
اور رمل یہ ہے کہ مرد کندھوں کو ہلاتے ہوئے کچھ تیزی کے ساتھ چلےگا اور اپنے قدم کو قریب قریب رکھ کر چلےگا۔ طواف کے پہلے تین چکروں میں مرد رمل کرےگا۔
نوٹ:- اضطباع اور رمل صرف مردوں کے لئے ہے۔ عورتیں اضطباع اور رمل نہیں کریں گی۔
طواف کے بعد دو رکعت واجب نماز
عمرہ کا طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے۔ اس نماز کو ”واجب الطواف“ کہا جاتا ہے۔
افضل یہ ہے کہ یہ دو رکعتیں مقام ابراھیم کے پیچھے پڑھی جائیں؛ لیکن اگر کوئی شخص یہ دو رکعتیں مسجد الحرام کے اندر کسی اور جگہ میں پڑھے یا مسجد الحرام کے باہر حدود حرم کے اندر پڑھے، تو یہ جائز ہے۔ البتہ یہ دونوں رکعتیں حدود حرم سے باہر پڑھںا مکروہ ہے۔
یہ دونوں رکعتیں مکروہ اوقات میں نہیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک اور عصر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سے غروب آفتاب تک یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی نے ان مکروہ اوقات میں (یعنی بعد الفجر یا بعد العصر) طواف کیا ہو، تو ایسے شخص کو چاہیئے کہ وہ ان دونوں رکعتوں کو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے بعد پڑھے۔
طواف کے بعد دو رکعتوں میں مستحب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھا جائے۔
دو رکعت واجب الطواف پڑھنے کے بعد سعی کے لئے آگے بڑھیں۔
سعی
سعی سے پہلے مُحرِم (احرام والے شخص) کے لئے مستحب ہے کہ وہ زمزم کا پانی پیئے؛ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عمرہ کے طواف کرنے کے بعد زمزم کا پانی نوش فرمایا پھر اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم سعی کے لئے تشریف لے گئے۔
سعی شروع کرنے سے پہلے حجرِ اسود کا استلام کرنا مسنون ہے۔ یہ استلام نواں استلام ہوگا۔
سعی کرنے والا صفا سے سعی شروع کرےگا اور مروہ کی طرف چلےگا۔ صفا سے مروہ تک سعی کا ایک چکر شمار ہوگا اور مروہ سے صفا تک سعی کا دوسرا چکر شمار ہوگا۔ اس طرح سے سعی کے سات چکر مروہ پر ختم ہوں گے۔
سعی کے دوران جب مُحرِم مرد میلین اخضرین (سبز بتیاں) کی جگہ پر پہنچیں، تو ان کو دوڑنا چاہیئے یہاں تک کہ وہ اس جگہ سے گزر جائیں، جب وہ اس جگہ سے گزر جائیں تو ان کو عام رفتار سے چلنا چاہیئے، لیکن یہ حکم مردوں کے ساتھ خاص ہے۔
عورتوں کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کو چاہیئے کہ میلین اخضرین کی جگہ میں اور اس کے علاوہ پورے سعی میں عام رفتار سے چلنا چاہیئے۔
جب سعی مکمل ہو جائے، تو آپ دو رکعت نفل نماز ادا کریں۔
حلق
سعی مکمل کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے یا کتروائے۔ محرم مرد کو اختیار ہے کہ وہ بال منڈوائے یا بال کتروائے؛ البتہ مرد کے لئے بال منڈوانا بال کتروانے سے افضل ہے اور اسی میں زیادہ ثواب ہے۔
عورتوں کو صرف بال کتروانا چاہیئے۔ ان کے لئے بال منڈوانا حرام ہے۔ عورتوں کو چاہیئے کہ وہ سر کے تمام بالوں کو جمع کر لیں اور ایک انگلی کے ارد گرد لے لیں پھر ایک انگلی کے پور کے برابر کتروا لیں۔
جو آدمی عمرہ کے تمام افعال سے فارغ ہو جائے (یعنی طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے) اور صرف حلق رہ جائے، تو وہ اپنے بال خود کاٹ سکتا ہے یا کسی ایسے شخص سے کٹوا سکتا ہے جو حالت احرام میں نہ ہو۔
اسی طرح اگر شوہر اور بیوی عمرہ کے تمام افعال سے فارغ ہو چکے ہوں اور صرف ان کے لئے بال کا کاٹنا رہ جائے، تو وہ ایک دوسرے کے بال کاٹ سکتے ہیں۔ بال کاٹنے کے بعد انسان حالت احرام سے نکل جائےگا اور اس کا عمرہ پورا ہو جائےگا۔
عمرہ پورا کرنے کے بعد انسان مکہ مکرمہ میں قیام کرے؛ یہاں تک کہ حج کے ایّام آ جائیں۔ جب حج کے ایّام آ جائیں، تو وہ حج کا احرام باندھے اور حج کے ارکان ادا کرے۔
حج کے پانچ دن
حج پیدل چل کر ادا کرنے کا عظیم ثواب
حج کے پانچ دنوں میں اگر انسان چاہے، تو پیدل چل سکتا ہے اور اگر چاہے، تو سواری سے جا سکتا ہے، لیکن پیدل چلنے میں زیادہ ثواب ہے۔
اگر کوئی شخص سواری کے ذریعہ حج ادا کرے اور کچھ قدم چلے یا حج کے کچھ حصّہ میں پیدل چلے (جیسے سواری سے اتر کر خیمہ تک پیدل جائے) تو جتنی دور وہ پیدل چلےگا، اس کے بقدر اس کو پیدل حج کا ثواب ملےگا۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا حضور صلی الله علیہ وسلم سے نقل فرماتی ہیں کہ فرشتے ان حاجیوں سے جو سواری پر آتے ہیں مصافحہ کرتے ہیں اور جو پیدل چل کر آتے ہیں ان سے معانقہ کرتے ہیں (یعنی پیدل چلنے والوں کی زیادہ عزّت کی جاتی ہے)۔ (شعب الایمان)
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کے لئے پیدل جائے اور آئے اس کے لئے ہر ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں لکھی جائیں گی۔ کسی نے عرض کیا کہ حرم کی نیکیوں کا کیا مطلب؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
آٹھویں ذی الحجہ
حج کے پانچ دنوں میں سے آٹھویں ذی الحجہ حج کا پہلا دن ہے۔ آٹھویں ذی الحجہ کی صبح انسان احرام باندھ کر اور سورج کے طلوع ہونے کے بعد منی کی طرف چلےگا۔
منی پہونچنے کے بعد انسان قیام کرےگا اور جب ظہر کا وقت داخل ہو جائے، تو وہ ظہر کی نماز کو مستحب وقت میں ادا کرےگا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ انسان منی میں قیام کر کے پانچ نمازیں ادا کرے (یعنی آٹھویں ذی الحجہ کی ظہر، عصر، مغرب، عشا اور نویں ذی الحجہ کی فجر تک)
حاجی کو چاہیئے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اس مبارک سنّت پر عمل کرتے ہوئے منی میں قیام کرے اور مذکورہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ منی میں رات گزارنا بھی سنّت ہے۔
منی میں قیام کے دوران انسان عبادت کرے (ذکر کرے، تلبیہ پڑھے، نفل نماز پڑھے اور قرآن کریم کی تلاوت کرے وغیرہ)۔
نویں ذی الحجہ
نویں ذی الحجہ کی صبح حاجی منی میں نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد سورج کے نکلنے کا انتظار کرےگا پھر عرفہ کے لئے روانہ ہو جائےگا۔ عرفہ جاتے ہوئے حاجی ذکر الہیٰ میں مشغول رہےگا اور تلبیہ بھی پڑھتا رہےگا۔
حاجي کو چاہیئے کہ احرام میں داخل ہونے کے وقت سے لیکر دسویں ذی الحجہ کے رمی جمرہ تک تلبیہ پڑھے، جب دسویں ذی الحجہ کا رمی جمرہ شروع ہوتا ہے، تو تلبیہ پڑھنا بند ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد حج کے اخیر تک تلبیہ نہیں پڑھا جائےگا۔
عرفہ پہونچنے کے بعد حاجی غسل کریگا۔ یہ غسل وقوف عرفہ کے لئے ہے؛ لہذا حاجی کو وقوف شروع کرنے سے پہلے غسل کرنا چاہیئے۔ حاجی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس غسل کو زوال کے بعد کرے یا زوال سے پہلے کرے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے عرفہ کے دن غسل فرمایا تھا۔
عرفہ میں وقوف
وقوف عرفہ یہ ہے کہ حاجی زوال کے بعد عرفہ کی زمین میں کھڑا ہو جائے اور خوب دعا اور استغفار کرے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرے اور تلبیہ پڑھے۔
وقوف عرفہ کے وقت بہتر یہ ہے کہ حاجی قبلہ کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہو جائے۔ بیٹھنا اور لیٹنا بھی اس کے لئے جائز ہے؛ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وقوف کے وقت حاجی کھیل تماشا اور لا یعنی کاموں میں ہرگز مشغول نہ ہو؛ کیونکہ یہ انتہائی مبارک وقت ہے۔
وقوف عرفہ کا وقت نویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور دسویں ذی الحجہ کو صبح صادق کے وقت تک ختم ہوتا ہے۔ وقوف عرفہ حج کا اصل رکن اور فرض ہے۔ اس کے بغیر حج ادا نہیں ہوگا؛ لہذا اگر وقوف عرفہ کسی سے چھوٹ جائے، تو اس کا حج ادا نہیں ہوگا۔
چوں کہ وقوف عرفہ کا وقت نویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد شروع ہوتا ہے اور دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق تک رہتا ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص نویں ذی الحجہ کو غروب آفتاب سے پہلے عرفہ میں حاضر نہ ہوا، تو اس کے لئے غروب آفتاب کے بعد عرفہ آنے کا موقع ہے۔
جو لوگ غروب آفتاب سے پہلے عرفہ میں حاضر تھے، ان کے لئے سنّت یہ ہے کہ وہ غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لئے روانہ ہو جائیں۔
غروب آفتاب سے پہلے حاجی کے لئے عرفہ سے نکلنا جائز نہیں ہے اگر کوئی شخص غروب آفتاب سے پہلے عرفہ سے نکل جائے، تو اس پر دم واجب ہوگا (یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ حدود حرم میں ایک دنبہ یا ایک بکری ذبح کرے جنایت کے لئے)۔ البتہ اگر وہ شخص عرفہ کی طرف دوبارہ لوٹ جائے اور غروب آفتاب کے بعد عرفہ سے روانہ ہو جائے، تو وہ دم اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائےگا۔
حاجی جب عرفہ میں ہو، تو وہ زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک وقوف میں مشغول رہےگا اور وہ ظہر اور اور عصر نماز کو جماعت کے ساتھ ان کے مقرر اوقات میں پڑھےگا۔
غروب آفتاب کے بعد حاجی مزدلفہ کے لئے روانہ ہوگا۔ روانہ ہوتے وقت حاجی تلبیہ پڑھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے روانہ ہوگا۔
حدیث شریف میں نویں ذی الحجہ کے بارے میں (یعنی عرفہ کے دن) روزہ رکھنے کی بہت بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ لہذا جو لوگ حالت احرام میں نہ ہوں، ان کے لئے اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
البتہ جو لوگ حالت احرام میں ہوں (حاجیوں کے لئے)، تو اگر چہ ان کے لئے اس دن روزہ رکھنا جائز ہے؛ مگر ان کے لئے روزہ نہ رکھنا افضل ہے؛ کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حج کے دوران اس دن میں روزہ نہیں رکھا تھا۔
علمائے کرام نے حج کے دوران آپ صلی الله علیہ وسلم کے روزہ نہ رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حجاّج کرام کے لئے سہولت چاہتے تھے کہ وہ اس دن اپنی قوت باقی رکھیں؛ تاکہ وہ وقوف عرفہ اور حج کے دیگر ارکان آسانی سے ادا کرے سکیں۔
عرفہ میں کونسی دعائیں پڑھنی چاہیئے
عرفہ کے دن وہ لوگ جو حج میں ہیں اور وہ لوگ جو حج میں نہیں ہیں دونوں کو مندرجہ ذیل دعا کثرت سے پڑھنی چاہیئے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان ہی کے لئے (تمام جہاں کی) بادشاہت ہے اور ان ہی کے لئے (تمام) تعریف ہے۔ ان ہی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
عرفہ کے دن حاجی خوب دعا کرے؛ کیونکہ یہ بہت مبارک دن ہے۔ یہ دن ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کا سب سے افضل دن ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ الله تعالیٰ عرفہ کے دن دوسرے دنوں کے مقابلہ سب سے زیادہ لوگ جہنم سے آزاد کرتے ہیں۔
حضرت علی رضی الله عنہ عرفہ کے دن مندرجہ ذیل دعا مانگتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس دعا کو پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے:
اَللّٰهُمَّ أَعْتِقْ رَقَبَتِيْ مِنَ النَّارِ وَأَوْسِعْ لِيْ مِنَ الرِّزْقِ الْحَلالِ وَاصْرِفْ عَنِّيْ فَسَقَةَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ
اے الله ! میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد فرما دے اور حلال روزی کو میرے لئے فراخ اور کشادہ فرما دے اور برے جن اور برے انسان کو مجھ سے دور فرما دے۔
حاجی کو چاہیئے کہ وقوف عرفہ کے وقت سو مرتبہ مندرجہ ذیل دعا پڑھے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان ہی کے لئے (تمام جہاں کی) بادشاہت ہے اور ان ہی کے لئے (تمام) تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
پھر سو مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اور اس کے بعد سو مرتبہ مندرجہ ذیل درود پڑھے:
اَللَٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَآلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَعَليْنَا مَعَهُمْ
اے الله ! درود (اپنی خاص رحمت) بھیج محمد صلی الله علیہ وسلم پر جس طرح تو نے درود (اپنی خاص رحمت) بھیجا حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد پر۔ بے شک آپ تعریف کے قابل اور بزرگ وبرتر ہے۔ اور ان کے ساتھ ہم پر بھی (رحمت) نازل فرما۔
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی مسلمان (حاجی) عرفہ کے دن زوال کے بعد میدان عرفات میں قبلہ رخ ہو کر وقوف کرے اور مذکورہ بالا اذکار پڑھے، تو الله تعالیٰ فرشتوں کو اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
”اے میرے فرشتو ! میرے اس بندے کا کیا بدلہ ہے جس نے میری تسبیح کی اور میری وحدانیت کی گواہی دی اور میری بڑائی اور عظمت بیان کی، مجھے پہچانا، میری تعریف کی اور میرے نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اے میرے فرشتو تم گواہ رہو کہ میں نے اس کو بخش دیا اور اس کو شفاعت کا شرف عطا کیا۔ اگر میرا یہ بندہ اس تمام اہل موقف (اہل عرفات) کے لئے سفارش کرے، تو میں اس کی سفارش قبول کروں گا۔“
مزدلفہ
مزدلفہ پہونچنے کے بعد حاجی کے لئے غسل کرنا مستحب ہے۔
جب حاجی مزدلفہ پہونچےگا تو وہ مغرب اور عشاء کی نماز کو ایک ساتھ پڑھےگا۔ حاجی کے لئے مغرب کی نماز عرفہ میں یا مزدلفہ جاتے ہوئے راستہ میں ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ حاجی پر واجب ہے کہ وہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ عشاء کے وقت میں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ادا کرے۔
مغرب کی نماز کے بعد حاجی نفل نماز یا سنّت نماز نہیں پڑھےگا؛ بلکہ وہ مغرب اور عشاء کی سنتیں اور نوافل عشاء نماز پڑھنے کے بعد ایک ساتھ پڑھےگا۔
اگر کسی شخص نے نمازِ مغرب عرفہ میں یا مزدلفہ کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں پڑھ لی، تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی اور اس پر واجب ہوگا کہ وہ مزدلفہ پہونچنے کے بعد عشاء کے وقت میں مغرب کی نماز کا اعادہ کرے؛ کیونکہ اس دن یعنی نویں ذی الحجہ کے دن مغرب نماز کا وقت حج کرنے والوں کے لئے وہی ہے جو عشاء نماز کا وقت ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص عشاء کے وقت سے پہلے مزدلفہ پہونچ جاوے، تو اس پر واجب ہے کہ وہ عشاء کے وقت کا انتظار کرے، جب عشاء کا وقت داخل ہو جائے، تو پھر وہ مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے (یعنی پہلے وہ مغرب کی نماز پڑھےگا، پھر عشاء کی نماز پڑھےگا اور اس کے بعد وہ ان دونوں نمازوں کی سنّت ونفل پڑھےگا)۔
مزدلفہ کی رات میں حاجی کو چاہیئے کہ وہ خوب عبادت اور ذکر کرے اور دعا واستغفار میں اپنا وقت گزارے؛ کیونکہ یہ رات انتہائی عظیم اور مبارک رات ہے۔ حاجی مزدفلہ میں رات گزارےگا اور مزدلفہ میں فجر کے وقت تک ٹھہرےگا اور فجر کے بعد وہ وقوف کرےگا۔
نوٹ:- عورتوں، بچوں، مریضوں اور کمزوروں کے لئے جائز ہے کہ وہ مزدلفہ میں رات نہ گزاریں؛ بلکہ مزدلفہ پہونچنے کے بعد وہ منی چلے جائیں اور منی میں رات گزاریں۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں، بچوں اور کمزوروں کو اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ پہونچنے کے بعد منی چلے جائیں اور وہ منی میں رات گزاریں۔
دسویں ذی الحجہ
حاجی کے لئے مسنون ہے کہ جس وقت صبح صادق کا وقت داخل ہو جائے اس وقت وہ مزدلفہ میں نمازِ فجر پڑھے (اندھیرے میں)۔
نماز فجر پڑھنے کے بعد حاجی کو چاہیئے کہ وہ قبلے کی طرف رخ کر کے وقوف کرے (یعنی وہ قبلے کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہو جائے اور وہ خوب دعا اور استغفار کرے) یہ وقوف واجب وقوف شمار کیا جاتا ہے؛ لہذا اگر کسی شخص سے مزدلفہ کا یہ واجب وقوف چھوٹ جائے تو اس پر دَم واجب ہوگا۔
البتہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں، بچوں اور کمزوروں (بوڑھوں) کو اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ میں رات نہ گزاریں؛ بلکہ مزدلفہ پہنچنے کے بعد وہ سیدھے منی چلے جائیں اور وہیں رات گزاریں؛ تو ان لوگوں پر مزدلفہ کا وقوف واجب نہیں ہے، لہذا اگر وہ نمازِ فجر کے بعد وقوف کو چھوڑ دے، تو ان پر دم واجب نہیں ہوگا۔
حاجی کے لئے طلوع آفتاب سے کچھ دیر پہلے مزدلفہ سے منی کے لئے نکلنا مسنون ہے۔
رمی
جب حاجی مزدلفہ میں ہو، تو اس کو چاہیئے کہ وہ مزدلفہ سے ستر کنکریاں (جو چنے کے برابر ہوں) اٹھا لے۔ ان کنکریوں کو راستے سے یا کسی اور جگہ سے بھی اٹھانا جائز ہے۔ اسی طرح ان کنکریوں کو منی سے بھی اٹھانا جائز ہے؛ مگر جمرات کی جگہ سے نہ اٹھائی جائیں (وہ جگہ جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں)۔
جب حاجی منی پہونچے، تو وہ جمرۂ عقبہ کی رمی کرےگا۔ اس دن کو (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) صرف جمرۂ عقبہ کی رمی کی جائےگی۔
دسویں ذی الحجہ کی رمی کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور گیارہویں ذی الحجہ کی صبح صادق تک رہتا ہے؛ مگر رمی کا مسنون وقت طلوع آفتاب سے لیکر زوال تک ہے اور زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک رمی کرنا جائز ہے۔
غروب آفتاب کے بعد سے گیارہویں ذی الحجہ کی صبح صادق تک رمی کرنا مکروہ ہے الاّ یہ کہ کوئی عذر ہو (جیسے بیماری، بڑھاپا یا لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے رمی کی قدرت نہ ہونا)۔
رمی کا طریقہ
حاجی جمرۂ عقبہ کو سات کنکریوں کے ساتھ مارےگا اور ہر کنکری پھینکتے وقت وہ ”الله اکبر“ کہےگا۔ نیز ہر کنکری پھینکتے وقت یا تمام کنکریوں کے پھینکنے کے بعد حاجی مندرجہ ذیل دعائیں پڑھے:
بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ رَغْمًا لِلشَّيْطَانْ وَحِزْبِه
الله کے نام سے اور الله سب سے بڑے ہیں۔ (میں یہ کنکری پھینک رہا ہوں) شیطان اور اس کے گروہ کو ذلیل کرنے کے لئے۔
اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ بِالْهُدٰى وَقِنِيْ بِالتَّقْوٰى وَاجْعَلِ الْآخِرَةَ خَيْرًا لِّيْ مِنَ الْأُوْلٰى
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا مَّبْرٌوْرًا وَذَنْبًا مَغْفُوْرًا وَسَعْيًا مَّشْكُوْرًا
اے الله ! خصوصی ہدایت کے ذریعہ میری رہنمائی فرما اور مجھے تقویٰ کے ذریعہ (گناہوں سے) بچا لے اور میرے لئے آخرت کو دنیا سے بہتر بنا۔ اے الله ! میرے حج کو مقبول بنا اور میرے گناہ کو معاف فرما اور میرے مجاہدہ اور کوشش کو مقبول بنا۔
دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی دعا نہیں کرےگا؛ بلکہ وہ اپنے خیمہ میں واپس آئےگا؛ کیونکہ اِس دن (دسویں ذی الحجہ) جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کرنا مسنون نہیں ہے۔ البتہ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ کو جمرۂ صغری اور جمرۂ وسطی کی رمی کے بعد دعا کرنا مسنون ہے۔
حج کی ابتدا سے لیکر دسویں ذی الحجہ کی رمی کے وقت تک حاجی کو چاہیئے کہ وہ کثرت سے تلبیہ پڑھے؛ لیکن جب حاجی دسویں ذی الحجہ کی رمی کو شروع کرے، تو وہ تلبیہ پڑھنا بند کرےگا اور حج کے آخر تک وہ تلبیہ نہیں پڑھےگا۔
ذبح
دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی کو چاہیئے کہ وہ بھیڑ یا بکری کی قربانی کرے یا گائے یا اونٹ کے ساتویں حصہ کی قربانی کرے (یعنی گائے یا اونٹ کی قربانی میں ایک حصہ لے لے)۔ اس قربانی کو ”دَمِ شکر“ کہا جاتا ہے۔
دم شکر ان لوگوں پر واجب ہے جو حج تمتع یا حج قران کرتے ہیں اور دم شکر ان لوگوں کے لئے مستحب ہے جو حج افراد کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص مسافر نہ ہو اور اس پر عید الاضحی کی قربانی واجب ہو، تو یہ دم شکر ذبح کرنا (حج میں) اس کے عید الاضحی کی واجب قربانی کی طرف سے کافی نہیں ہوگا؛ بلکہ اس پر عید الاضحیٰ کی واجب قربانی الگ سے کرنی پڑےگی (خواہ وہ مکہ مکرمہ میں کرے یا اپنے وطن میں کرے)۔
حلق
دم شکر کی قربانی کے بعد متمتع (حج تمتع کرنے والے) اور قارن (حج قران کرنے والے) کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنا بال منڈوائے یا کتروائے۔ دم شکر کی قربانی سے پہلے ان (متمتع اور قارن) کے لئے بال منڈوانا یا کتروانا جائز نہیں ہے؛ لہذا اگر کوئی متمتع یا قارن دم شکر کی قربانی سے پہلے اپنا بال منڈوالے یا کتروالے تو اس پر دم واجب ہوگا؛ کیونکہ اس نے واجب ترتیب کی مخالفت کی ہے۔
متمتع اور قارن پر واجب ہے کہ وہ رمی، حلق اور دم شکر کی قربانی میں اس خاص ترتیب کی رعایت کرے جو حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے۔ حدیث شریف میں ان تین عبادات کے لئے مندرجہ ذیل ترتیب بیان کی گئی ہے: پہلے متمتع اور قارن جمرۂ عقبہ کی رمی کریں گے پھر قربانی کریں گے اور آخر میں وہ اپنے بال منڈوائیں گے یا کتروائیں گے۔
بال منڈوانے کے بعد حاجی کے لئے جائز ہے کہ وہ مونچھیں کاٹے، بغل اور زیرِ ناف کے بال کاٹے اور ناخن وغیرہ تراشے۔ بال منڈوانے یا کتروانے سے پہلے حاجی کے لئے مونچھیں کاٹنا اور ناخن وغیرہ تراشنا جائز نہیں ہے۔
بال منڈوانے کے بعد محرم (احرام والے شخص) کے لئے وہ تمام چیزیں حلال ہو جاتی ہیں جو حالت احرام میں اس پر حرام تھیں؛ البتہ اس کی بیوی ابھی تک اس پر حرام ہے (یعنی اس کے لئے بیوی سے ہمبستری کرنا یا اس کو شہوت سے چھونا جائز نہیں ہے)۔
اپنی بیوی کے علاوہ تمام دوسری چیزیں جو اس کے لئے حرام تھیں اب وہ اس کے لئے حلال ہوگی؛ لہذا محرم اپنے احرام والے کپڑے کو نکال سکتا ہے اور سلے ہوئے کپڑے کو پہن سکتا ہے۔ نیز وہ خوشبو بھی اپنے بدن اور کپڑے پر لگا سکتا ہے؛ جب محرم طوافِ زیارت کرےگا، تو اس کی بیوی بھی اس کے لئے حلال ہو جائےگی۔
البتہ مفرد (حج افراد کرنے والے) کے لئے رمی کے فوراً بعد بال منڈوانا یا کتروانا جائز ہے؛ کیونکہ مفرد دم شکر کی قربانی نہیں کرتا ہے؛ کیونکہ دم شکر مفرد پر واجب نہیں ہے؛ بلکہ صرف مستحب ہے۔
لیکن اگر مفرد جانور کو ذبح کرنا چاہے تو اس صورت میں اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ پہلے ذبح کرے اور پھر اپنا بال منڈوائے یا کتروائے (جیسے متمتع اور قارن کرتے ہیں)۔
طوافِ زیارت
حاجی کو چاہیئے کہ وہ مکہ مکرمہ جائے اور طوافِ زیارت کرے۔
دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنا سنّت ہے۔ اگر کسی نے دسویں ذی الحجہ کو طوافِ زیارت نہیں کیا، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ طواف زیارت کو بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک کرے۔
البتہ اگر کوئی عورت حیض یا نفاس کی وجہ سے ان دنوں (دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ) میں طواف زیارت نہ کر سکے، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ حیض یا نفاس کے ختم ہونے کے بعد طوافِ زیارت کرے۔
اگر کسی نے ابھی تک (یعنی حلق کے بعد) اپنے احرام کے کپڑے کو نہ اتارا ہو اور وہ طوافِ زیارت کے لئے جائے، تو اگر طواف زیارت کے بعد وہ سعی کرنے والا ہو، تو وہ طوافِ زیارت میں رمل اور اضطباع کرےگا۔
اگر وہ اپنے احرام کے کپڑے کو اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن چکا ہو، تو وہ طواف زیارت میں اضطباع نہ کرےگا؛ البتہ اگر وہ طواف کے بعد سعی کرنے والا ہو، تو وہ طواف زیارت میں رمل کرےگا۔
اگر کسی شخص نے حج شروع کرنے سے پہلے ایک نفل طواف کیا اور اس نفل طواف کے بعد اس نے سعی کیا اس نیت کے ساتھ کہ یہ سعی میرے طواف زیارت کے بعد کی سعی کا قائم مقام ہوگا (یعنی یہ سعی طواف زیارت کے بعد کی سعی کے بدلہ میں ہوگا)، تو اس صورت میں جب وہ طواف زیارت کرےگا، تو وہ اپنے طواف زیارت میں رمل نہیں کرےگا؛ (کیونکہ رمل صرف اس طواف میں ہوتا ہے جس کے بعد سعی ہوتی ہے)۔
طواف زیارت کے بعد حاجی آٹھویں بار حجر اسود کا استلام کرےگا پھر وہ دو رکعت واجبۃ الطواف پڑھےگا۔
اس کے بعد حاجی سعی شروع کرےگا؛ لیکن سعی شروع کرنے سے پہلے وہ نویں بار حجر اسود کا استلام کرےگا پھر وہ صفا کی طرف بڑھےگا اور سعی شروع کرےگا۔ جب حاجی سعی مکمل کرے، تو وہ دو رکعت نفل نماز پڑھےگا۔
طواف زیارت اور سعی کے بعد حاجی کو چاہیئے کہ وہ منی کی طرف لوٹ جائے اور وہاں رات گزارے۔ جب حاجی طواف زیارت سے فارغ ہو جائے، تو اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال ہو جائےگی۔
گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ
گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو حاجی تینوں جمرات کی رمی کرے۔ ان دنوں میں رمی کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
رمی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ حاجی پہلے جمرۂ اولیٰ کی رمی کرے، پھر جمرۂ وسطیٰ کی اور آخر میں جمرۂ عقبہ کی رمی کرے۔
جمرۂ اولیٰ اور جمرۂ وسطیٰ کی رمی کرنے کے بعد حاجی کو چاہیئے کہ وہاں سے ہٹ جائے اور کسی ایسی جگہ میں جا کر اپنے ہاتھوں کو اٹھا لے اور دعا کرے۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد حاجی دعا نہیں کرےگا، کیونکہ جمرۂ عقبہ کے بعد دعا کرنا سنّت نہیں ہے؛ لہذا وہ جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد فوراً اپنے خیمہ کی طرف لوٹ آئےگا۔
ان دنوں میں (رمی کے دنوں میں یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) رمی کے علاوہ جب تک حاجی اپنے خیمہ میں ہو، تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت عبادت میں گزارے۔ اسی طرح وہ منی میں رات گزارے؛ کیونکہ حاجی کے لئے منی میں رات گزارنا سنّت ہے۔
بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنے کے بعد حاجی کو اختیار ہے کہ وہ مکہ مکرمہ چلا جائے یا منی میں قیام کرے اور تیرہویں ذی الحجہ کو تینوں جمرات کی رمی کرے۔
منی میں تیرہویں ذی الحجہ کو قیام کر کے تینوں جمرات کی رمی کرنا بہتر ہے اور زیادہ ثواب کا باعث ہے بمقابلہ اس کے کہ حاجی بارہویں ذی الحجہ کی رمی کے بعد مکہ مکرمہ چلا جائے۔
اگر کوئی شخص بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک منی میں قیام کرے، تو غروب آفتاب کے بعد اس کے لئے منی سے نکلنا مکروہ ہوگا؛ لیکن اگر وہ رات میں صبح صادق سے پہلے منی سے نکل جائے، تو اس پر دم واجب نہیں ہوگا۔
البتہ اگر وہ صبح صادق تک منی میں ٹھرا رہے، تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ تیرہویں ذی الحجہ کو رمی کرے۔ تیرہویں ذی الحجہ کو رمی کا مستحب وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص صبح صادق اور زوال کے درمیانی وقت میں رمی کرے، تو اس کی رمی درست ہوگی؛ مگر مکروہ تنزیہی ہوگی۔
حج کے ارکان کی ادائیگی کے بعد حاجی کو چاہیئے کہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ جائے اور قیام کرے۔
مکہ مکرمہ میں جب تک وہ قیام کرنا چاہے وہ قیام کرے۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران حاجی جتنا زیادہ چاہے وہ طواف اور عمرہ کرے۔
البتہ حاجی یہ بات ذہن میں رکھے کہ اگر وہ عمرہ کرنا چاہے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ تیرہویں ذی الحجہ کے بعد ہی عمرہ کرے۔ کیونکہ نویں ذی الحجہ سے تیرہویں ذی الحجہ تک سال کے ان پانچ دنوں میں عمرہ کرنا جائز نہیں ہے (مکروہ تحریمی ہے)۔
مکہ مکرمہ سے روانگی اورطواف وداع
مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے سے پہلے حاجی کے لئے طواف وداع کرنا واجب ہے؛ لہذا اگر کوئی حاجی یہ طوافِ وداع چھوڑ دے، تو اس پر دم واجب ہوگا۔
البتہ اگر کوئی عورت حالتِ حیض میں ہو یا کوئی حاجی بیمار ہو اور وہ طواف وداع پر قادر نہ ہو، تو ان پر طواف وداع واجب نہیں ہوگا؛ لہذا اگر وہ طواف وداع کو چھوڑ دے، تو ان پر دم واجب نہیں ہوگا۔
اگر کسی شخص نے طوافِ وداع نہیں کیا، مگر اس نے حج کے بعد کوئی نفل طواف کیا، تو یہ نفل طواف طواف وداع کے بدلہ میں ہوگا اور کوئی مزید طواف نہ کرنے کی وجہ سے اس پر دم واجب نہیں ہوگا۔