نکاح کی سنتیں اور آداب – ‏۱۵‏

رضاعت کے احکام

(۱) جتنے رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہیں وہ رشتے رضاعت (دودھ پلانے) کے اعتبار سے بھی حرام ہیں یعنی جن عورتوں سے نسب کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہے، ان عورتوں سے رضاعت (دودھ پلانے) کی وجہ سے بھی نکاح کرنا حرام ہے۔

مثال کے طور پر جس طرح حقیقی ماں یا حقیقی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے، اسی طرح رضاعی ماں اور رضاعی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ لہذا اگر کسی عورت نے کسی بچہ/بچی کو دودھ پلایا ہو، تو وہ عورت اور اس کا خاوند اس بچہ/بچی کے رضاعی ماں اور باپ بنتے ہیں اور ان کے لئے اس بچہ/بچی سے نکاح کرنا حرام ہوگا۔

اسی طرح دودھ پلایا ہوا بچہ/بچی کے لئے رضاعی ماں باپ کی اولاد سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ رضاعی ماں باپ کی اولاد دودھ پلایا ہوا بچہ/بچی کے رضاعی بھائی یا بہن بنتے ہیں۔

اسی طرح رضاعی ماں باپ کے بھائی ، بہن، دودھ پلایا ہوا بچہ/بچی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ دودھ پلایا ہوا بچہ/بچی کے رضاعی چچا، رضاعی پھوپھی، رضاعی ماموں اور رضاعی خالہ بنتے ہیں۔ [۱]

(۲) شریعت میں متبنیٰ (لے پالک بچہ/بچی) کا حکم حقیقی بچہ/بچی کی طرح نہیں ہے یعنی کسی لڑکے/لڑکی کو متبنیٰ لڑکا/لڑکی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا/بیٹی نہیں ہوتا ہے اور حقیقی لڑکا/لڑکی کے احکام اس سے متعلق نہیں ہوتے ہیں؛ لہذا متببنیٰ لڑکے/لڑکی کے والدین یا ان کی اولاد کے  لئے دار متنبیٰ لڑکے/متنبیٰ لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔  [۲]

(۳) اگر لےپالک لڑکا ہو اور وہ بلوغ کی عمر کو پہونچ جائے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی گود لینے والی ماں اور خاندان کی دوسری عورتوں سے پردہ کرے، کیونکہ وہ ان کا نامحرم ہے۔

اگر لےپالک لڑکی ہو اور وہ بلوغ کی عمر کو پہونچ جائے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گود لینے والے والد اور خاندان کے دوسرے مردوں سے پردہ کرے، کیوںکہ وہ ان کا نامحرم ہے۔ [۳]

(۴) اگر لےپالک بچہ بہت چھوٹا ہے اور گود لینے والی ماں اس کو مدّت رضاعت (دو قمری سال) کے اندر اپنا دودھ پلاوے، تو پھر لےپالک بچہ گود لینے والے ماں باپ کے لئے رضاعی بچہ بنےگا اور وہ اس کے رضاعی ماں باپ بنیں گے اور ان کی اولاد لےپالک بچہ کے رضاعی بھائی اور بہن بنیں گے۔

لہذا رضاعی ماں باپ کے بچے اور لےپالک بچہ کے درمیان رضاعت کے سارے احکام جاری ہوں گے یعنی ان کے درمیان پردہ ضروری نہیں ہوگا اور ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ایک دوسرے کے رضاعی بھائی بہن ہے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ جس طرح سگے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بھائیوں اور بہنوں کے درمیان نکاح حرام ہے۔

(۵) اگر گود لینے والی ماں نے لےپالک بچہ یا بچی کو ایسا دودھ پلایا ہو جو غیر فطری طریقہ سے اس کے لیے پیدا ہوا ہو (یعنی دوا کھانے کے ذریعہ دودھ پیدا ہوا ہو نہ کہ حمل کے ذریعہ) تو گود لینے والی ماں لےپالک بچہ یا بچی کی رضاعی ماں بن جائےگی، البتہ گود لینے والا باپ لےپالک بچہ یا بچی کا رضاعی باپ نہیں بنےگا؛ (کیونکہ یہ دودھ اس کے حمل ٹھہرانے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا ہے)۔

اس صورت میں رضاعی رشتہ صرف گود لینے والی ماں (رضاعی ماں) اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ثابت ہوگا (یعنی گود لینے والے باپ اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ثابت نہیں ہوگا)؛ نیز گود لینے والی ماں کے بچّے لےپالک بچہ اور بچی کے رضاعی بھائی اور بہن بن جائیں گے اور ان کے درمیان رضاعت کے احکام جاری ہوں گے۔

جاننا چاہیئے کہ اگر چہ اس صورت میں گود لینے والا باپ لےپالک لڑکی کا رضاعی باپ نہیں بنےگا؛ لیکن چونکہ وہ لےپالک لڑکی کی رضاعی ماں کا شوہر ہے اس لیے اس کے اور لےپالک لڑکی کے درمیان پردہ کرنا واجب نہیں ہوگا۔

التبہ گود لینے والے باپ کے وہ بچے جو دوسری بیوی سے ہوں، وہ لےپالک لڑکی اور لڑکے کے رضاعی بھائی اور بہن نہیں بنیں گے؛ لہذا ان کے درمیان پردہ کرنا واجب ہوگا۔

اسی طرح گود لینے والے باپ کے والدین اس لےپالک بچہ اور بچی کے رضاعی دادا/دادی نہیں بنیں گے؛ لہذا پردہ اور نکاح وغیرہ کے احکام میں لے پالک بچہ اور بچی ان کے لئے اجنبی کے حکم میں ہوگا۔

اس کے برخلاف گود لینے والی ماں کے والدین اس لےپالک بچہ اور بچی کے رضاعی نانا اور نانی بنیں گے؛ لہذا ان کے درمیان پردہ کرنا واجب نہیں ہوگا۔


[۱] فالرضاع في إيجاب الحرمة كالنسب والصهرية والأصل فيه قوله عليه السلام يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب … والتحريم بالرضاع كما يثبت من جانب المرأة يثبت من جانب الرجل وهو الزوج الذي نزل لبنها بوطئه ويسميه الفقهاء لبن الفحل وبيانه أن المرأة إذا أرضعت بلبن حدث من حمل رجل فذلك الرجل أب الرضيع لا يحل لذلك الرجل نكاحها وإن كانت أنثى … وإن كانت للرجل امرأة واحدة فحملت منه وأرضعت صبيين صارا أخوين لأب وأم وأخوات الزوج عمات المرضع ولا يحل له مناكحتهن ويجوز له مناكحة أولادهن وأم الزوج جدة الرضيع تحرم عليه (المحيط البرهاني ٤/۹٤-۹۳)

(قوله ولا حل بين رضيعي ثدي) أي بين من اجتمعا على الارتضاع من ثدي واحد في وقت واحد لأنهما أخوان من الرضاع … (قوله: وبين مرضعة وولد مرضعتها وولد ولدها) والمرضعة الأولى بفتح الضاد اسم مفعول والثانية بكسرها أي لا حل بين الصغيرة المرضعة وولد المرأة التي أرضعتهما لأنهما أخوان من الرضاع … وكذا لا يتزوج أخت المرضعة لأنها خالته ولا ولد ولدها لأنه ولد الأخ (البحر الرائق ۳/۲٤٤)

[۲] اُدْعُوْهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَإِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِيْ الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ (سورة الأحزاب : ۵)

كذلك كان من مزعوماتهم أن الرجل إذا تبنى ولد غيره صار ملحقا ببنيه وأجريت عليه سائر أحكام البنوة من الميراث والحرمات وكان هذا تغيير شرائع الله سبحانه وتعالى من عند أنفسهم كما كان دأبهم في أمثالها (أحكام القرآن للمفتي محمد شفيع رحمه الله ۳/۲۹٠)

المتبنى لا يلحق بالابناء في الاحكام

الثاني: إن الدعي والمتبنى لا يلحق في الأحكام بالابن فلا يستحق الميراث ولا يرث عنه المدعي ولا يحرم حليلته بعد الطلاق والعدة على ذلك المدعي ولا عكسه (أحكام القرآن للمفتي محمد شفيع رحمه الله ۳/۲۹۱)

[۳] قال وينظر الرجل من ذوات محارمه إلى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها وفخذها … والمحرم من لا تجوز المناكحة بينه وبينها على التأبيد بنسب كان أو بسبب كالرضاع والمصاهرة الخ (الهداية ٤/۳۷٠)

قال ولا يجوز أن ينظر الرجل إلى الأجنبية إلا وجهها وكفيها قال فإن كان لا يأمن الشهوة لا ينظر إلى وجهها إلا لحاجة لقوله عليه الصلاة والسلام من نظر إلى محاسن امرأة أجنبية عن شهوة صب في عينيه الآنك يوم القيامة فإذا خاف الشهوة لم ينظر من غير حاجة تحرزا عن المحرم وقوله لا يأمن يدل على أنه لا يباح إذا شك في الاشتهاء كما إذا علم أو كان أكبر رأيه ذلك (الهداية ٤/۳٦۸)

[۳] قال وينظر الرجل من ذوات محارمه إلى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها وفخذها … والمحرم من لا تجوز المناكحة بينه وبينها على التأبيد بنسب كان أو بسبب كالرضاع والمصاهرة الخ (الهداية ٤/۳۷٠)

قال ولا يجوز أن ينظر الرجل إلى الأجنبية إلا وجهها وكفيها قال فإن كان لا يأمن الشهوة لا ينظر إلى وجهها إلا لحاجة لقوله عليه الصلاة والسلام من نظر إلى محاسن امرأة أجنبية عن شهوة صب في عينيه الآنك يوم القيامة فإذا خاف الشهوة لم ينظر من غير حاجة تحرزا عن المحرم وقوله لا يأمن يدل على أنه لا يباح إذا شك في الاشتهاء كما إذا علم أو كان أكبر رأيه ذلك (الهداية ٤/۳٦۸)

Check Also

دعا کی سنتیں اور آداب – ۷

(۱۷) بہتر یہ ہے کہ جامع دعا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں …