باغِ محبّت(ایکیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

بشرحافی رحمہ اللہ – اپنے زمانہ کے ایک بڑے ولی

بشر حافی رحمہ الله اپنے زمانے کے ایک بڑے بزرگ اور الله کے ولی تھے۔ ایک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا: آپ صلاح وتقوی کے اتنے بلند مقام پر کیسے پہونچے؟

انہوں نے جواب دیا: جو کچھ مجھے ملا محض الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے ملا ہے۔ میں تمہیں کیا بتاؤں، میں دین سے دور تھا۔ ایک دن راستہ میں چل رہا تھا کہ مجھے ایک کا غذ نظر آیا، میں نے اس کو اٹھایا، تو اس میں ”بسم الله الرحمن الرحيم“ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا:

اے میرے مولیٰ ! آپ کا نام زمین پر پڑا ہوا ہے۔ پھر میں نے اس کو اچھی طرح صاف کیا اور جیب میں رکھ لیا۔ میرے پاس صرف دو درہم تھے، میں نے اس سے خوشبو خریدی اور خوشبو کو کاغذ پر لگایا اور گھر جا کر اس کاغذ کو بلند جگہ پر ادب واحترام کے ساتھ رکھ دیا۔

پھر میں رات کو سو گیا، تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے: اے بشر ! تم نے ہمارا نام زمین سے اٹھایا اور اس میں خوشبو لگائی، بے شک ہم تمہارا نام دنیا اور آخرت میں روشن کریں گے۔ اس عمل کی وجہ سے الله تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا۔ (کتاب التوّابین)

اس قصہ سے معلوم ہوا کہ بشر حافی رحمہ الله نے الله تعالیٰ کے مبارک نام کی عزّت کی اور اس کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ کیا، تو الله تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں عزّت بخشی اور انہیں قرآن وحدیث کا اتنا زیادہ علم عطا فرمایا کہ وہ اپنے زمانے میں ایک بڑے محدّث بن گئے اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله جیسے بلند پایہ محدّث نے ان کے علوم سے استفادہ کیا۔

علماء بیان کرتے ہیں کہ دین سے متعلق تمام چیزیں (جیسے قرآن کریم، اذان، مسجد، مؤذن وغیرہ) کی تعظیم واحترام کرنا الله تعالیٰ کے یہاں قبولیت حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

ذیل میں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جو بشر حافی رحمہ الله کی معرفت خداوندی اور دینی فقاہت وبصیرت پر روشنی ڈالتا ہے اور اسی واقعہ کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے ان کی پیروی شروع کی تھی:

حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کے زمانہ میں عبد الرحمٰن نامی ایک معالج تھے، جو دونوں اماموں: امام احمد بن حنبل رحمہ الله اور بشر حافی رحمہ الله کا علاج کرتے تھے۔

عبد الرحمٰن معالج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله اور بشر حافی رحمہ الله بیمار ہو گئے۔ جب میں علاج کے لئے بشر حافی رحمہ الله کے پاس جاتا اور ان سے پوچھتا: آپ کی طبیعت کیسی ہیں؟ تو وہ پہلے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے پھر اپنی حالت بتاتے۔ اور جب ابو عبد الله (احمد بن حنبل رحمہ الله) کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سوال کرتا: آپ کی طبیعت کیسی ہیں، تو وہ جواب دیتے: خیریت سے ہوں۔

ایک روز میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ الله سے کہا: آپ کے بھائی بشر حافی بھی بیمار ہیں۔ جب میں ان سے ان کی حالت پوچھتا ہوں، تو وہ اوّلاً الله تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں پھر اپنی حالت بتاتے ہیں۔ تو امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے مجھ سے کہا کہ بشر حافی رحمہ الله سے پوچھو کہ انہوں نے یہ طریقہ کن سے سیکھا ہے؟ تو میں نے ان سے کہا: مجھے ان سے سوال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ تو امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے کہا: ان سے اس طرح کہو کہ آپ کے بھائی ابو عبد الله (امام احمد بن حنبل رحمہ الله) سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے یہ طریقہ کن سے سیکھا ہے؟

عبد الرحمٰن معالج بیان کرتے ہیں کہ میں بشر حافی رحمہ الله کے پاس گیا اور پوری بات ذکر کی، تو انہوں نے مجھ سے خوشی میں کہا: ابو عبد الله کو ہر چیز سند کے ساتھ چاہیئے۔ ابن عون رحمہ الله سے مروی ہے کہ امام ابن سیرین رحمہ الله نے فرمایا: جب بندہ اپنی بیماری کی شکایت کرنے سے پہلے الله تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے تو وہ شکایت نہیں ہوتی ہے۔ اور جب میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ یہ میری حالت ہے تو میں تمہیں اپنی کمزوری بتاتا ہوں اور میں تمہیں اپنے اوپر الله تعالیٰ کی قدرت سے آگاہ کرتا ہوں۔

عبد الرحمٰن معالج بیان کرتے ہیں کہ ان کی بات سُن کر میں ابو عبد الله (امام احمد بن حنبل رحمہ الله) کے پاس گیا اور انہیں پوری بات بتائی۔ اس کے بعد جب بھی میں امام احمد بن حنبل رحمہ الله کے پاس جاتا، تو وہ اوّلاً الله تعالیٰ کی تعریف کرتے پھر اپنی حالت ذکر کرتے۔ (مناقب امام احمد)

اس واقعہ سے مندرجہ ذیل نکتے نکلتے ہیں:

(۱) علم علمائے صالحین سے حاصل کیا جائے اور سنی ہوئی بات پر عمل کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کی جائے۔

(۲) جب کوئی شخص مصیبتوں میں ہو، تو اس کو چاہیئے کہ وہ الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے؛ تاکہ اس بات کا اظہار ہو کہ وہ الله تعالیٰ کے فیصلہ سے راضی اور خوش ہے۔

(۳) کسی شخص پر جب کوئی مصیبت وپریشانی آئے تو وہ الله تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کو یاد کرے اور الله تعالیٰ کی حمد وثنا سے غافل نہ ہو۔

(٤) جب بندہ اپنی پریشانی بیان کرنے سے پہلے اپنے رب کی حمد کرتا ہے، تو اس کو الله تعالیٰ کے فیصلہ کی شکایت کرنے والا شمار نہیں کیا جائےگا۔

(۵) بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے جائز طریقے اختیار کرنا سنّت سے ثابت ہے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اسلاف عظام کے طریقوں پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17453


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …