میّت کے ستر کا چھپانا
سوال :- بعض جگہوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب میّت کو غسل دیا جاتا ہے، تو غسل دینے والوں کی طرف سے میّت کے ستر کے چھپانے کا احتیاط نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کبھی غسل کے دوران میّت کا ستر کھل جاتا ہے، کیا یہ درست ہے؟
جواب: – یہ درست نہیں ہے۔ میّت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والوں پر واجب ہے کہ وہ ہر وقت میّت کے ستر کو ایسے کپڑے سے ڈھانپے رکھے جو دبیز قسم کا کپڑا ہو (موٹا کپڑا ہو)، جس سے میّت کا ستر پورے طور پر نظر نہ آوے۔ [۱]
ننگے ہاتھوں سے میّت کے گھٹنوں کو چھونے سے اجتناب
سوال:- ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جب میّت کے گھٹنوں پر عطر لگاتے ہیں، تو گھٹنوں کو کھول دیتے ہیں اور بسا اوقات گھٹنوں کو اپنے ننگے ہاتھوں سے چھوتے بھی ہیں کیا یہ درست ہے؟
جواب:- ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک (گھٹنوں سمیت) کا حصّہ ستر میں داخل ہے؛ لہذا اس حصّہ کا چھپانا ہر وقت ضروری ہے۔ جس طرح کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے شخص کے ستر کو دیکھے، اسی طرح اس کے لئے دوسرے کے ستر کو چھونا بھی جائز نہیں ہے۔ چنانچہ میّت کے گھٹنوں پر کافور یا عطر لگانے کے وقت ضروری ہے کہ کوئی میّت کے گھٹنوں کو نہ دیکھے اور نہ ہاتھ سے چھوئے، بلکہ کفن کے اندر سے گھٹنوں پر کافور مل دے یا عطر لگا دے۔ [۲]
Source:
[۱] [۲]( ويغسلها تحت خرقة ) السترة ( بعد لف ) خرقة ( مثلها على يديه ) لحرمة اللمس كالنظر ( ويجرد ) من ثيابه ( كما مات ) وغسله عليه الصلاة والسلام في قميصه من خواصه قال الشامي : قوله ( لحرمة اللمس كالنظر ) يفيد هذا التعليل أن الصغير الذي لا عورة له لا يضر عدم ستره ط قوله ( ويجرد من ثيابه ) ليمكنهم التنظيف لأن المقصود من الغسل هو التطهير والتطهير لا يحصل مع ثيابه لأن الثوب متى تنجس بالغسالة تنجس به بدنه ثانيا بنجاسة الثوب فلا يفيد الغسل فيجب التجريد كذا في العناية وظاهره أن الوجوب على ظاهره قوله ( كما مات ) لأن الثياب تحمى عليه فيسرع إليه التغير بحر قوله ( من خواصه ) لما روى أبو داود أنهم قالوا نجرده كما نجرد موتانا أم نغسله في ثيابه فسمعوا من ناحية البيت اغسلوا رسول الله وعليه ثيابه قال ابن عبد البر روي ذلك عن عائشة من وجه صحيح فدل هذا أن عادتهم كانت تجريد موتاهم للغسل في زمنه صلى الله عليه وسلم شرح المنية زاد في المعراج وغسله ليس للتطهير لأنه كان طاهرا حيا وميتا (رد المحتار ۲/۱۹۵) قال الشامي : تنبيه لم يذكر الاستنجاء للاختلاف فيه فعندهما يستنجي وعند أبي يوسف لا وصورته أن يلف الغاسل على يده خرقة ويغسل السوأة لأن مسها حرام كالنظر جوهرة (رد المحتار ۲/۱۹٦)
وتستر عورته بخرقة من السرة إلى الركبة كذا في محيط السرخسي وهو الصحيح كذا في المحيط ظاهر المذهب أن يستر عورته الغليظة دون الفخذين كذا في الخلاصة هو الصحيح كذا في الهداية … ولا ينظر الرجل إلى فخذ الرجل عند الغسل وكذا المرأة لا تنظر إلى فخذ المرأة كذا في التتارخانية (الفتاوى الهندية ۱/۱۵۸)
وأما بيان القسم الثاني فنقول نظر المرأة إلى المرأة كنظر الرجل إلى الرجل كذا في الذخيرة وهو الأصح هكذا في الكافي (الفتاوى الهندية ۵/۳۲۷) انظر أيضا أحسن الفتاوى ٤/۲٤۷