(۳) جنازہ کے متعلق متفرق مسائل

عورتوں کا میّت کے گھر جانا

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ عورتوں کا میّت کے گھر جانا کیسا ہے؟ شریعت اس سلسلہ میں کیا کہتی ہے؟ برائے مہربانی مندرجہ ذیل امور کا جواب دیں:

(۱) سوال: کیا محلّہ کی عام عورتوں کے لئے (جو میّت کے قریبی رشتہ داروں میں شامل نہیں ہیں) میّت کے گھر جانا جائز ہے؟ جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔

جواب: جی ہاں، جائز ہے۔ یہ تعزیت ہے اور تعزیت سنّت ہے۔

(۲) سوال: میّت کا گھر محلّہ کی عام عورتوں سے بھر جاتا ہے۔ کیا اس کو میّت کے گھر والوں کے لئے باعثِ تکلیف نہیں کہا جائےگا؟

جواب: تعزیت کا مقصد یہ ہے کہ میّت کے اہل خانہ کی غم خواری کی جائے اور ان کی اخلاقی مدد کی جائے؛ لہذا عورتوں کے لئے کچھ دیر میّت کے گھر ٹھہرنا جائز ہے۔ جتنی دیر وہاں ٹھہریں، وہ ذکر الٰہی اور قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ میں مشغول رہیں اور اس کا ثواب میّت کو پہونچائیں۔ البتہ اگر کوئی یہ محسوس کرے کہ میّت کے گھر والوں کو بھیڑ سے زحمت ہو رہی ہے تو وہ وہاں سے میّت کے گھر والوں سے ملاقات کر کے نکل جائے۔

(۳) سوال: کیا صرف میّت کے رشتہ دار عورتیں تعزیت کرے یا محلّہ کی دوسری عورتیں بھی تعزیت کر سکتی ہیں؟

جواب: تعزیت سنّت ہے اور تعزیت کی سنّت میّت کے رشتہ داروں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ میّت کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سب تعزیت کر سکتے ہیں۔

(٤) سوال: مردوں اور عورتوں کے میّت کے گھر جانے کے متعلق شریعت کے کیا احکام ہیں؟

جواب: مردوں اور عورتوں کے میّت کے گھر جانے کے متعلق شریعت کے احکام یہ ہے:

(۱) میّت کے گھر میں نامحرم مردوں اور عورتوں کا انتظام علیٰحدہ علیٰحدہ ہونا چاہیئے اور مردوں کا عورتوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہونا چاہیئے۔

(۲) مردوں اور عورتوں کو ناجائز کاموں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ مثلاً غیبت اور لا یعنی باتوں میں مشغول ہونا یا عورتوں کا نامحرم میّت کا چہرہ دیکھنا یا مردوں کا نامحرم مرحومہ کا چہرہ دیکھنا یا میّت کی تصویر کھینچنا۔

(۳) مردوں اور عورتوں کو ہر اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیئے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ (مثلاً فاتحہ خوانی کے لئے مردوں اور عورتوں کا اجتماعی دعا کرنا اور میّت کے گھر کھانا تناول کرنا وغیرہ)۔ [۱]

Source: http://muftionline.co.za/node/12104


 

[۱] قال الشامي : مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت وقال أيضا ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة اهـ وفي البزازية ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره وفيها من كتاب الاستحسان وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج وقال وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى اهـ (رد المحتار ۲/۲٤٠)

قوله ( وبتعزية أهله ) أي تصبيرهم والدعاء لهم به قال في القاموس العزاء الصبر أو حسنه وتعزى انتسب اهـ فالمراد هنا الأول وفيما قبله الثاني فافهم قال في شرح المنية وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن لقوله عليه الصلاة والسلام من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة رواه ابن ماجه وقوله عليه الصلاة والسلام من عزى مصابا فله مثل أجره رواه الترمذي وابن ماجه والتعزية أن يقول أعظم الله أجرك وأحسن عزاءك وغفر لميتك اهـ (رد المحتار ۲/۲۳۹)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …