نکاح کی سنتیں اور آداب – ۱۱

رات کی باری اور شفقت ودلداری میں برابری

(۱) شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان رات کی باری میں برابری کرے ۔ برابری کا کیا طریقہ ہوگا؟ اس سلسلہ میں شریعت نے برابری کے طریقہ کو شوہر کی تجویز اور صواب دیدگی پر چھوڑ دیا ہے؛ لیکن شوہر اس بات کا ضرور خیال رکھے کہ وہ راتوں کی تعداد میں بیویوں کے درمیان برابری کرے۔ [۱]

 مثال کے طور پر اگر شوہر ایک بیوی کے ساتھ تین رات گزارے تو اس کو چاہیئے کہ وہ دوسری بیوی کے ساتھ بھی تین رات گزارے۔ اگر اس کی خواہش ہے کہ ایک بیوی کے پاس دو رات گزارے، تو اس پر ضروری ہوگا کہ دوسری بیوی کے پاس بھی دو رات گزارے۔

(۲) رات غروبِ شمس سے شروع ہوتی ہے اور صبح صادق پر ختم ہوتی ہے۔ جہاں تک دن کے اوقات کی بات ہے، تو بہتر یہ ہے کہ شوہر دن کے اوقات بھی اپنی بیویوں کے درمیان برابری کے ساتھ گزارے (اگر چہ اس میں برابری واجب نہیں ہے)۔ [۲]

(۳) شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی ساری بیویوں کے ازدواجی حقوق کی تکمیل کرے۔ جتنی رات وہ ایک بیوی کے پاس گزارے اتنی رات وہ دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے البتہ شوہر پر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان ہمبستری کی تعداد میں برابری کرے۔ [۳]

(۴) اگر ایک بیوی اپنی رات کی باری چھوڑ دے اور شوہر کو اجازت دے کہ وہ اس کی راتیں دوسری بیوی کے ساتھ گزارے تو یہ جائز ہے؛ لیکن اگر وہ دوبارہ اپنا حق (باری) واپس لینا چاہے، تو شریعت کی طرف سے اس کو اجازت ہے کہ وہ اپنی باری واپس لے لے۔ [۴]

(۵) شوہر کو چاہیئے کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے درمیان شفقت وہمدردی میں مساوات کرے۔ البتہ اگر وہ فطری طور پر ایک بیوی کی طرف زیادہ مائل ہو اور اس کے دل میں اس کے لئے زیادہ محبّت ہو تو اس پر اس کی گرفت نہیں ہوگی اور وہ گنہگار نہیں ہوگا؛ کیونکہ اندرونی جذبات انسان کی بس اور قدرت سے باہر ہیں؛ لیکن شوہر پر یہ ضروری ہے کہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ شفقت ودلداری میں اپنا طرزِ عمل یکساں رکھے۔ اگر وہ کسی بیوی کے ساتھ زیادہ ہمدردی اور دلداری کے ساتھ پیش آئےگا، تو وہ گنہگار ہوگا۔

(۶) شوہر پر واجب نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان سفر میں برابری کرے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سفر کے حالات حضر کے حالات سے مختلف ہوتے ہیں اور سفر میں وہ آسانیاں حاصل نہیں ہوتی ہیں جو گھر میں میسّر ہوتی ہیں؛ لہذا شریعت نے شوہر کو اجازت دی ہے کہ جس بیوی کے ساتھ اس کو زیادہ مناسبت اور انس ہو اگر وہ صرف اسی کے ساتھ سفر کرنا چاہے، تو وہ اس کے ساتھ سفر کرے۔

یہ بات واضح رہے کہ سفر میں جتنا وقت صرف ہوگا شوہر پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کا حساب لگاوے اور دوسری بیوی کے ساتھ اتنا وقت گزار دے یعنی اس کو باری میں شمار نہیں کیا جائےگا اور سفر سے واپسی کے بعد شوہر کے ذمہ واجب نہیں ہوگا کہ جتنی راتیں اس نے ایک بیوی کے ساتھ سفر میں گزاری ہیں، اتنی راتیں وہ دوسری بیویوں کے ساتھ بھی گزارے۔ البتہ اگر شوہر سفر کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے، جس سے اس کی تمام بیویاں خوش ہو جائیں، تو یہ بہتر ہوگا مثال کے طور پر بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرے اور جس بیوی کا نام قرعہ مںں نکلے، اس کے ساتھ سفر کرے یا ہر بیوی کے لئے اپنے ساتھ سفر کے لئے باری مقرّر کر دے، تاکہ ہر بیوی کو اس کے ساتھ سفر کا موقع مل سکے۔ [۵]

 


[۱] إذا كان للرجل الحر أو المملوك امرأتان حرتان فإنه يكون عند كل واحدة منهما يوما وليلة وإن شاء أن يجعل لكل واحدة منهما ثلاثة أيام فعل لأن المستحق عليه التسوية فأما في مقدار الدور فالاختيار إليه وهذه التسوية في البيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا في المجامعة لأن ذلك ينبني على النشاط ولا يقدر على اعتبار المساواة فيه (المبسوط للسرخسي ۵/۲۱۷)

[۲] (ويقيم عند كل واحدة منهن يوما وليلة) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم

قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: (قوله لكن إلخ) قال في الفتح: لا نعلم خلافا في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى بل ذلك في البيتوتة وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل نهر (رد المحتار ۳/۲٠۷)

[۳](قوله والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله في البيتوتة لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندهما للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع (رد المحتار ۳/۲٠۲)

[٤] (قوله ولها أن ترجع إذا وهبت قسمها لأخرى) فأفاد جواز الهبة والرجوع أما الأول فلأن سودة بنت زمعة وهبت يومها لعائشة رضي الله عنها وأما صحة الرجوع في المستقبل فلأنها أسقطت حقا لم يجب بعد فلا يسقط (البحر الرائق ۳/۲۳٦)

[۵] (ولا حق لهن في القسم حالة السفر فيسافر الزوج بمن شاء منهن والأولى أن يقرع بينهن فيسافر بمن خرجت قرعتها) وقال الشافعي رحمه الله القرعة مستحقة لما روي أن النبي عليه الصلاة والسلام كان إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه إلا أنا نقول إن القرعة لتطييب قلوبهن فيكون من باب الاستحباب وهذا لأنه لا حق للمرأة عند مسافرة الزوج ألا يرى أن له أن لا يستصحب واحدة منهن فكذا له أن يسافر بواحدة منهن ولا يحتسب عليه بتلك المدة (الهداية ۱/۲۱٦)

Check Also

ماہِ رمضان کے سنن و آداب- ۱

(۱) رمضان سے پہلے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیں۔ بعض بزرگانِ دین رمضان کی تیاری رمضان سے چھ ماہ قبل شروع فرما دیتے تھے...