باغِ محبّت (چودہویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

زندگی کی حقیقی خوشی اور قلبی سکون کا راز

حضرت عبد اللہ بن مرزوق رحمہ اللہ ایک متّقی اور نیک بندہ تھے اور اپنے زمانہ کے اولیاء میں سے تھے، وہ حضرت سفیان بن عیینہ اور حضرت فضیل بن عیاض رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر محدثین کے معاصرین میں سے تھے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی دور ایسا گزرا کہ وہ دین سے دور تھے اور آخرت سے غافل تھے؛لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں سچی پکی توبہ اور زندگی بدلنے کی توفیق عطا فرمائی۔

ان کی توبہ کا قصّہ یوں ہے کہ وہ ایک دن لہو لعب، شراب نوشی اور موسیقی سننے میں اس قدر مست تھے کہ ان کی ظہر، عصر اور مغرب کی نماز قضا ہو گئی، باوجود یہ کہ ان کی باندی ان کو ہر نماز کے وقت پر متنبہ کر رہی تھی۔

بالآخر جب عشاء کا وقت گزر گیا اور رات ختم ہو گئی، تو باندی ایک آگ کا انگارہ لے کر آئی اور ان کے پیر پر رکھ دیا، جب دہکتا ہوا انگارہ ان کے پیر کو لگا تو درد سے چلاّ کر پوچھا: یہ کیا ہے؟ باندی نے جواب دیا: یہ دنیا کی آگ کا انگارہ ہے، جب آپ دنیا کی اس آگ کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں، تو آخرت کی آگ کو کیسے برداشت کریں گے؟ باندی کی یہ نصیحت سن کر عبد اللہ بن مرزوق ہوش میں آئے اور بے تحاشا رونے لگے پھر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ باندی کی بات ان کے دل میں اثر کر چکی تھی، چناں چہ اس واقعہ کے بعد ان کی زندگی بدل گئی اور انہوں نے تمام گناہوں سے سچی پکی توبہ کی اور اپنی زندگی بھر کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے لگے، نیز شریعت کے مطابق زندگی گزارنے لگے اور اپنا مال اللہ کے راستے میں صدقہ کردیا اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔

 ایک مرتبہ حضرت سفیان بن عیینہ اور فضیل بن عیاض رحمہما اللہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو دیکھا کہ عبد اللہ بن مرزوق رحمہ اللہ انتہائی سادہ زندگی گزار رہے ہیں، جو سنّت کے مطابق تھی، تو حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے ان سے کہا کہ حدیث میں وارد ہے کہ جو بھی آدمی اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز چھوڑ دیتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے اچھا بدلہ عطا فرماتے ہیں، تو آپ نے اپنی گذشتہ زندگی کو بدل دیا، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کیا بدلہ ملا؟ حضرت عبد اللہ بن مرزوق رحمہ اللہ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حقیقی خوشی اور قناعت کی نعمت عطا کی ہے۔ (کتاب التوّابین ابن قدامہ،ص۱۲۲)

آج کل ہر شخص قلبی چین وسکون اور خوشی کا متمنی ہے اور مختلف چیزوں کے ذریعہ سکون واطمینان حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بعض لوگ دنیوی زیب وزینت، عالیشان مکان اور شاندار گاڑی وغیرہ میں چین وسکون تلاش کرتے ہیں اور کچھ لوگ سکون واطمینان کی تلاش میں کھیل گاہوں، تفریحی مقامات اور سیر وسیاحت کی جگہوں کو تلاش کرتے ہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ حقیقی خوشی اور دلی اطمینان وسکون صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور یاد میں ہے یعنی حقیقی اطمینان وسکون اسی بندے کو حاصل ہو سکتا ہے، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبّت ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ

خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتاہے۔ (سورۃ الرعد)

اگر ہم انسان کے جسم کو دیکھیں، تو ہمیں اس میں دو پہلو نظر آئیں گے: ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ ظاہری سے مراد جسم کے ظاہری حصے ہیں اور باطنی سے مراد جسم کا اندرونی حصہ ہے، جس میں اس کی روح پوشیدہ ہوتی ہے۔

انسان کے ظاہری جسم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے، اس لئے جسم کا ظاہری حصہ اپنے وجود وبقا کے لئے دنیوی چیزوں: کھانا، پینا، کپڑا، مکان اور سواری وغیرہ کا محتاج ہے اور انسان کے باطنی جسم (روح) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا نہیں کیا ہے؛ بلکہ اس کو آسمان میں پیدا کیا ہے۔ اس لئے اس کے وجود وبقا کا دارومدار آسمانی چیزوں پر ہے اور آسمانی چیزوں سے مراد شریعت کے احکام ہیں یعنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ہیں۔ یہی چیزیں روح کی غذاہیں۔

جب بندہ نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے اور دیگر عبادتیں انجام دیتا ہے، تو اس کی روح کو غذا حاصل ہوتی ہے، تو اس کی روح شریعت کے نور سے منّور ہو جاتی ہے اور قناعت حاصل ہوتی ہے، جب وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے: حرام چیزیں دیکھتا ہے، چوری کرتا ہے، حرام مال کھاتا ہے، زنا کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، جوا کھیلتا ہے اور اسی طرح کے دوسرے گناہوں میں ملوّث ہوتا ہے، تو اس کے دل سے ایمان کی روشنی نکل جاتی ہے اور اس کے دل پر گناہوں کی تاریکی چھا جاتی ہے، تو وہ اپنی زندگی میں گھٹن اور تنگی محسوس کرتا ہے اور قلبی اطمینان وسکون اور خوشی سے محروم ہو جاتا ہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک بڑی قیمتی بات لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی خوشی کا دارومدار انسان کے بہت زیادہ مالدار ہونے پر نہیں ہے؛ بلکہ حقیقی خوشی کا دارومدار قناعت واطمینان پر ہے اور یہ دولت اسی شخص کو حاصل ہوتی ہےجو احکامِ شریعت پر عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ مضبوط کرتا ہے۔

جب انسان شریعت کے مطابق زندگی گزارتا ہے، تو اس کو حقیقی خوشی اور مسرّت حاصل ہوتی ہے؛ اگر چہ اس کے پاس مال ودولت زیادہ نہ ہو اور اگر وہ شریعت کے مطابق زندگی نہ گزارے، تو اس کو حقیقی خوشی ہرگز حاصل نہیں ہوگی؛ اگر چہ اس کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت،ج۲۳،ص۸۸-۸۹)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے اور حقیقی خوشی نصیب فرمائے۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17185


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …