سورۃ العادیات کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا ۙ﴿۲﴾‏فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾‏‎ ‎اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ  لَکَنُوۡدٌ ۚ﴿۶﴾‏‎ وَ  اِنَّہٗ  عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ ۚ﴿۷﴾‏‎ ‎ وَ  اِنَّہٗ  لِحُبِّ الۡخَیۡرِ  لَشَدِیۡدٌ ؕ﴿۸﴾‏‎ ‎اَفَلَا یَعۡلَمُ  اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِی الۡقُبُوۡرِ ۙ﴿۹﴾‏‎ ‎وَ  حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوۡرِ ﴿ۙ۱۰﴾‏‎ ‎اِنَّ  رَبَّہُمۡ  بِہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّخَبِیۡرٌ ٪﴿۱۱﴾‏‎ ‎

قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں ﴿۱﴾ پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں ﴿۲﴾ پھر صبح کے وقت یلغار کرتے ہیں ﴿۳﴾ پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں ﴿۴﴾ پھر اس وقت (دشمنوں کی) جماعت میں جا گھستے ہیں ﴿۵﴾ بے شک انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے ﴿۶﴾ اور وہ خود بھی اس پر گواہ ہے ﴿۷﴾ اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے ﴿۸﴾ کیا اس کو وہ وقت معلوم نہیں جب جتنے (مردے) قبروں میں ہیں (وہ سب زندہ کیے جائیں گے)  ﴿۹﴾ اور ظاہر ہو جائے گا جو کچھ دلوں میں ہے﴿۱۰﴾ بے شک ان کا پروردگار ان کے حال سے اس روز پورا واقف ہوگا ﴿۱۱﴾

تفسیر

وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا ۙ﴿۲﴾‏فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾‏‎ ‎

قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے  ہوئے دوڑتے ہیں﴿۱﴾ پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں  ﴿۲﴾پھر صبح  کے وقت یلغار کرتے ہیں  ﴿۳﴾پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں  ﴿۴﴾ پھر اس وقت (دشمنوں کی) جماعت میں جا گھستے ہیں ﴿۵﴾

اس سورت میں انسان کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ گھوڑے کی طبیعت، فرماں برداری اور وفاداری سے سبق لے۔ گھوڑا ایک ایسا جانور ہے جو اپنے مالک کی اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے۔ ہروقت اپنے مالک کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا ہے۔  رات اور دن میں جس وقت بھی مالک اس کو آواز دیتا ہے، وہ اس کے حکم پر بغیر کسی تاخیر کے لبّیک کہتا ہے۔ یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں بھی اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر دشمنوں کی صفوں میں جا گھستا ہے اور ان پر حملہ کرتا ہے۔ دشمنوں کے ہتھیار اس کو اپنے مالک کا حکم بجا لانے سے نہیں روک پاتے ہیں۔

یہ ہے مالک کے لیے گھوڑے کی اطاعت شعاری اور فرماں برداری، جبکہ اگر دیکھا جائے تو اس کے مقابلہ میں مالک کا احسان گھوڑے پربہت کم ہے۔ مالک صرف اپنے گھوڑے کو چارہ کھلاتا ہے، پانی پلاتا ہے اور اس کا تھوڑا سا خیال رکھتا ہے جبکہ گھوڑا اس تھوڑے سے احسان کے بدلہ میں اس کے لیے اپنا سب کچھ  قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

ان آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھا کر انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کیاہے کہ تم غور کرو کہ تم اپنے رب کے کتنے فرماں بردار اور شکر گزار ہو؛ کیا تم اپنے رب کا اتنا بھی شکریہ ادا کرتے ہو جتنا ایک بے عقل اور ناسمجھ جانور (گھوڑا) اپنے مالک کا شکریہ ادا کرتا ہے؟ جب ایک جانور جس کے اندر کوئی عقل اور سمجھ نہیں ہے، اپنے مالک کا اتنا زیادہ مطیع وفرماں بردار اور شکرگزار ہے، تو تمہیں اپنے رب کا کتنا زیادہ مطیع وفرماں بردار اور شکر گزار ہونا چاہیئے، جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہیں عقل و خرد، علم فہم  اور دیگر نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ ۚ﴿۶﴾

بے شک انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے ﴿۶﴾

اس آیتِ کریمہ سے قبل پانچ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی بہادری، جفاکشی اور اطاعت وفرماں برداری کو بیان کیا ہے۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گھوڑا جیسے بہادر اور طاقتور کو انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ اس کا تقاضہ یہ تھا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کرتا، جس طرح گھوڑا اس کی (انسان کی) اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے اور اس کا ہر حکم مانتا ہے؛ لیکن انسان ہمیشہ اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے “اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ” کے اندر بیان کیا ہے کہ انسان اپنے رب کا بہت بڑا ناشکرا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے لفظ “کنود” کا استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو صرف اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کو یاد کرتا ہے اور ان نعمتوں اور راحتوں کو بھول جاتا ہے، جن سے وہ رات اور دن لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے؛ لیکن اپنے منعمِ حقیقی کو بھول جاتا ہے۔ وہ دینی نعمتوں میں اتنا مست اور مگن ہو جاتا ہے کہ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ ساری نعمتیں محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں (جو نہایت رحم دل اور بہت بڑے داتا ہیں) اور ان کے حصول میں اس کی ذہانت اور عقل وخرد کا کوئی دخل نہیں ہے۔

وَ اِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ ۚ﴿۷﴾‏‎ وَ اِنَّہٗ  لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ  ؕ﴿۸﴾‏‎ ‎

اور وہ خود بھی اس پر گواہ ہے ﴿۷﴾ اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے ﴿۸﴾

اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مال کی بے پناہ محبّت کی مذمت کی ہے۔ مال کی محبّت حرام نہیں ہے؛ لیکن مال کی بے پناہ اور بہت زیادہ محبّت ناجائز ہے؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے غافل کراتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مال کی بے پناہ محبّت کی وجہ سے وہ آدمی حلال وحرام کے درمیان تمییز وتفریق نہیں کرتا ہے اور ان اعمال سے بچنے کی فکر نہیں کرتا ہے، جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام پریشانیوں اور مصیبتوں کی جڑ مال کی بے پناہ محبّت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمّت کی ہے، پھر اس سے نکلنے کا ایک نہ ایک دن حل اور علاج بیان کیا ہے۔ علاج یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اس بات کو مستحضر رکھے کہ اس کو اس عارضی دنیا سے رخصت ہونا ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے تمام چھوٹے بڑے اعمال کا حساب دینا ہے۔

اَفَلَا یَعۡلَمُ اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِی الۡقُبُوۡرِ ۙ﴿۹﴾‏‎ ‎وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوۡرِ ﴿ۙ۱۰﴾‏‎ ‎اِنَّ رَبَّہُمۡ  بِہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّخَبِیۡرٌ ﴿۱۱﴾‏‎ ‎

کیا اس کو وہ وقت معلوم نہیں جب جتنے (مردے) قبروں میں ہیں (وہ سب زندہ کیے جائیں گے) ﴿۹﴾ اور ظاہر ہو جائے گا جو کچھ دلوں میں ہے﴿۱۰﴾ بے شک ان کا پروردگار ان کے حال سے اس روز پورا پورا واقف ہوگا ﴿۱۱﴾ ‏

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہماری توجّہ قیامت کے دن کی طرف مبذول کرائی ہے۔ جس دن تمام مخفی چیزیں ظاہر کر دی جائیں گی، قبروں کے مردے زندہ کر دیئے جائیں گے اور دلوں کی پوشیدہ باتیں آشکارا کر دی جائیں گی۔ انسان کے دل کے ارادے اور نیتیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ اگر کسی نے کوئی عمل دنیا کے اندر ریاکاری کے لیے کیا ہوگا، وہ قیامت کے دن ہر ایک کے سامنے آشکارا ہو جائےگا۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …