نکاح کی سنتیں اور آداب – ۷

بیوی کے حقوق

(۱) شریعت میں شوہر کے ذمہ بیوی کا نفقہ واجب ہے۔ نفقہ سے مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی مالی حیثیت کے مطابق اپنی  بیوی کے لیے رہائش، کھانے پینے اور کپڑے کا انتظام کرے۔ نیز اس کی دیگر ضرورتیں پوری کرے۔ [۱]

(۲) شوہر کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نفقہ کے علاوہ بھی ہر ماہ کچھ پیسے دے؛ تاکہ وہ اس سے جو کچھ چاہے، اپنے لیے خرید سکے۔

(۳) اگر شوہر اپنی بیوی کے لیے علیحدہ مکان کا انتظام کرنے کی قدرت رکھتا ہو خواہ وہ مکان خریدنے کی قدرت رکھتا ہو یا وہ کرایہ پر لے سکتا ہو، تو دونوں صورتوں میں بہتر یہ ہے کہ وہ علیحدہ مکان کا انتظام کرے۔ البتہ اگر اس کی اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ الگ مکان کا انتظام کر سکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے ماں باپ کے گھر کے اندر علیحدہ کمرے کا انتظام کرے جہاں وہ اپنی ذاتی چیزیں رکھ سکے اور شوہر کے ساتھ خلوت میں وقت گزار سکے۔ بیوی کے کمرے میں گھر کے دیگر افراد اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہیئے۔ [۲]

(۴) شوہر کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کا لحاظ کرے اور اس کے جذبات کا خیال رکھے، تمام امور میں اس کے دل کو خوش رکھنے کی کوشش کرے (الاّ یہ کہ وہ شوہر سے کسی ایسی چیز کا تقاضا کرے جو شریعت کے خلاف ہو، تو شوہر ہرگز اس کو پورا نہ کرے)۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ” تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور میں اپنی بیویوں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہوں۔“ [۳]

(۵) شوہر صرف اپنا فرض نبھانے اور ذمہ داریاں ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے؛ بلکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مزید پیار و محبّت اور شفقت و مودّت کے ساتھ پیش آئے۔ یہی سنّت کی روح ہے اور اسی میں خوش گوار ازدواجی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔

(۶) شوہر جو بھی مال اپنی بیوی اور اہل وعیال پر خرچ کرے، وہ اس کے لیے باعثِ صدقہ ہوگا (یعنی اس کو صدقے کا ثواب ملےگا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”اہل وعیال پر مال خرچ کرنا صدقہ ہے (یعنی صدقہ کے ثواب کا باعث ہے)۔“ ایک دوسری حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”آدمی کا سب سے بہترین مال وہ ہے، جو وہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے۔“ ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کو چاہیے کہ شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے اپنے اہل وعیال پر فراخ دلی اور سخاوت سے مال خرچ کرے۔

(۷) شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو دین کے احکام سکھائے اور اس کو اسلامی تعلیمات وآداب سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرے (صحیح عقائد، نیک اعمال، آدابِ معاشرت، صفائی ستھرائی، پاکی، ناپاکی اور اچھے اخلاق وغیرہ)؛ کیوں کہ اگر بیوی کے اندر مذکورہ اخلاق وآداب ہوں گے، تو وہ بچوں کو سکھائےگی اور بچےّ صحیح راستے پر چلیں گے۔ دوسری طرف شوہر یہ بھی دیکھے کہ جو اچھے اور نیک اوصاف اس کی بیوی میں ہیں اور وہ اچھے اور نیک اوصاف اس کے اندر نہیں ہیں، تو اس کو چاہیئے کہ وہ ان نیک اوصاف کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرے۔ اس طریقے سے میاں، بیوی دینی امور میں ایک دوسرے کے معاون ومددگار بنیں گے۔

(۸) شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ تہذیب و شائستگی سے گفتگو کرے اور عزّت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔ بیوی کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر نہ ہوں۔ ہمیشہ اچھے اخلاق کے ساتھ معاملہ کرے خواہ بیوی کے ساتھ ہو یا گھر کے دیگر افراد کے ساتھ۔ اگر شوہر مذکورہ باتوں کا خیال رکھےگا، تو بیوی دل کی گہرائی سے اپنے شوہر کی قدر کرےگی اور ان کے درمیان الفت ومحبّت پیدا ہوگی۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”سب سے کامل ایمان والا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم سے بہترین وہ لوگ ہیں، جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔“ [۴]

(۹) شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے والدین (ساس،سسر) اور دیگر اعزّہ واقارب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔


[۱] وظاهر الرواية اعتبار حاله فقط وبه قال جمع كثير من المشايخ ونص عليه محمد وفي التحفة والبدائع أنه الصحيح (رد المحتار ۳/۵۷٤)

[۲] (والسكنى في بيت خال عن أهله وأهلها) أي تجب لها السكنى في بيت ليس فيه أحد من أهله ولا من أهلها إلا أن يختارا ذلك لأن السكنى حقها إذ هي من كفايتها فتجب لها كالنفقة (تبيين الحقائق ۳/۵۸)

[۳] سنن الترمذي، الرقم: ۳۸۹۵، وقال: هذا حديث حسن صحيح

[٤] سنن الترمذي، الرقم: ۱۱٦۲، وقال: هذا حديث حسن صحيح

Check Also

ماہِ رمضان کے سنن و آداب- ۱

(۱) رمضان سے پہلے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیں۔ بعض بزرگانِ دین رمضان کی تیاری رمضان سے چھ ماہ قبل شروع فرما دیتے تھے...