سُوۡرَۃُ الۡبَيِّنَةِ‎ ‎کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

لَمۡ  یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا  مِنۡ  اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ  الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾ رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً  ۙ﴿۲﴾ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾ وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ  اِلَّا مِنۡۢ  بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ  الۡبَیِّنَۃُ ؕ﴿۴﴾ وَ مَاۤ  اُمِرُوۡۤا  اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ  وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ اِنَّ  الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ  نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾ اِنَّ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۷﴾ جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ  رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ  اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ  عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ ﴿۸﴾

جو لوگ اہلِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر تھے وہ باز آنے والے نہ تھے، جب تک کہ ان کے پاس ایک واضح دلیل نہ آتی ﴿۱﴾ (یعنی) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول، جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے﴿۲﴾  جن میں درست مضامین لکھے ہوں ﴿۳﴾ اور جو لوگ اہلِ کتاب تھے وہ اس واضح دلیل کے آنے کے بعد ہی مختلف ہوئے ﴿۴﴾ حالاں کہ ان لوگوں کو یہی حکم ہوا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ دین کو اسی کے لیے خالص رکھیں یکسو ہو کر اور نماز کی پابندی رکھیں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی طریقہ ہے(ان ) درست مضامین کا ﴿۵﴾ جو لوگ اہلِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر   ہوئے وہ  دوزخ کی آگ میں جائیں گے، جس میں ہمیشہ رہیں گے ۔یہ لوگ بدترین خلائق ہیں﴿۶﴾ بےشک  جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ لوگ بہترین خلائق ہیں ﴿۷﴾ ان کا بدلہ ان کے پروردگار کے نزدیک ہمیشہ رہنے کی بہشتیں ہیں ، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جہاں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔اللہ تعالیٰ ان سے خوش رہےگااور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش رہیں گے ، یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے﴿۸﴾ (ماخوذ از بیان القرآن اور تفسیرِ ماجدی )

تفسیر

لَمۡ  یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ  اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ  الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا ‏صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً  ۙ﴿۲﴾فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾‏

جو لوگ اہلِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر تھے وہ باز آنے والے نہ تھے، جب تک کہ ان کے پاس ایک واضح دلیل نہ آتی ﴿۱﴾ (یعنی) اللہ ‏تعالیٰ کا ایک رسول، جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے ﴿۲﴾ جن میں درست مضامین لکھے ہوں ﴿۳﴾ ‏

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ تاریک اور پُرآشوب دور تھا۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) اور مشرکین ایسی سخت ظلمت اور تاریکی میں تھے کہ ان کے لیے اس سے نکلنا ناممکن تھا۔ یہ لوگ جب تک کہ واضح نشانی اور کھلی دلیل کا مشاہدہ نہ کر لیتے، اس تاریکی سے نکلنے والے نہیں تھے۔ یہ کھلی دلیل اور واضح نشانی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (یہودو نصاریٰ اور مشرکین کو) قرآنِ کریم کی صاف اور پاک آیتیں  پڑھ کر سُناتے تھے۔

جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے سامنے قرآنِ مجید اور سچّا دین لے کر آئے، تو انہوں نے اچھی طرح  پہچان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، جس طرح وہ اپنی اولاد کو پہچانتے تھے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت میں ذرّہ برابر شک نہیں تھا اور انہیں  اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ وہی آخری نبی ہیں، جن کے بارے میں ان کی  آسمانی کتابوں میں پیشن گوئی کی گئی تھی۔ صرف یہی نہیں؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہودونصاریٰ مشرکین سے کہتے تھے کہ عنقریب ایک نبی آنے والے ہیں۔ اور جب وہ نبی آئیں گے، تو ہم ان کے ساتھ  مل کر مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے۔ نیز وہ لوگ (یہود و نصاریٰ) اس نبی کے توسّل سے اللہ تعالیٰ سےخیرو برکت کی دُعائیں بھی کرتے تھے۔ ان سب کے باوجود جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوّت سے سرفراز کئے گئے، تو انہوں نے آپ کی نبوّت کا انکار کر دیا۔

وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ  اِلَّا مِنۡۢ  بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ  الۡبَیِّنَۃُ ؕ﴿۴﴾وَ مَاۤ  اُمِرُوۡۤا  اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ  وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾

اور جو لوگ اہلِ کتاب تھے وہ اس واضح دلیل کے آنے کے بعد ہی مختلف ہوئے ﴿۴﴾ حالاں کہ ان لوگوں کو یہی حکم ہوا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ دین کو اسی کے لیے خالص رکھیں یکسو ہو کر اور نماز کی پابندی رکھیں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی طریقہ ہے (ان) درست مضامین کا ﴿۵﴾

یہود و نصاری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا؛ لیکن ان کی بد قسمتی تھی کہ وہ راہِ حق سے ہٹ گئے اور قرانِ کریم کی واضح اور کھلی آیتوں کا انکار کر دیا۔

اِنَّ  الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ  نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾

جو لوگ اہلِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوئے وہ دوزخ کی آگ میں جائیں گے، جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین خلائق ہیں ﴿۶﴾

نجات کا دارومدار ایمان پر ہے؛ لہذا جو ایمان والا ہوگا، وہ جنّت میں داخل ہوگا اور وہاں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہوگا۔

اس آیتِ کریمہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ یہود و نصاری ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہود ونصاری اہلِ کتاب میں سے ہیں اور آسمانی کتابوں (تورات وانجیل) پر ایمان رکھنے کی وجہ سے انہیں بھی نجات ملے گی اور ان کو بھی جنّت میں داخل کیا جائےگا؛ لیکن اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں بیان کر دیا ہے کہ نجات کا مستحق وہی شخص ہوگا، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائےگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوّت کو تسلیم کرےگا۔ یہود ونصاری چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت و رسالت کا انکار کرتے ہیں؛ لہذا یہ لوگ کافر ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔

ایمان کے شرائط میں ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان لایا جائے اور اگر کوئی ایک نبی کو بھی جھٹلاتا ہے، تو اس کا یہ عمل تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو جھٹلانے کے برابر ہوگا۔ اس قاعدہ کے رو سے یہود ونصاری کا معاملہ بالکل واضح ہے کہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرنے کی وجہ سے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نبوّت کا انکار کیا؛ لہذا وہ سب کافر قرار دیئے گئے، اس کی وجہ یہ ہےکہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر دی؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار کرنے سے سب انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی۔

اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور یہ لوگ (یہود ونصاری) سب سے بدترین لوگ ہیں۔ انسان، جنّات اور حیوانات سمیت دنیا میں جتنی بھی مخلوقیں ہیں، یہود ونصاری ان سب سے بدتر اور بُرے لوگ ہیں۔ اور ان کے بدترین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ باوجود اہلِ کتاب ہونے کے وہ راہِ حق سے گمراہ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مقام انتہائی گھٹیا اور حقیر ہے۔

اِنَّ  الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ  نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾اِنَّ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۷﴾جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ  رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ  اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ  عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ ٪﴿۸﴾

بےشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ لوگ بہترین خلائق ہیں ﴿۷﴾ ان کا بدلہ ان کے پروردگار کے نزدیک ہمیشہ رہنے کی بہشتیں ہیں ، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جہاں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے خوش رہےگا اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش رہیں گے، یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے﴿۸﴾

قیامت کے روز اللہ سبحانہ وتعالیٰ اہلِ جنّت سے سوال کریں گے: کیا تم مجھ سے راضی ہو؟ اہلِ جنّت جواب دیں گے: اے اللہ ! ہم آپ سے راضی کیوں نہیں ہوں گے، جبکہ آپ نے ہمیں ایسی نعمتیں عطا کی ہیں، جو آپ نے کسی اور کو عطا نہیں کی ہیں۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرمائیں گے: اے جنّتیوں ! اب میں تم سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو گیا۔ اب کبھی بھی میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

اہلِ جنّت کو ہر قسم کی نعمت اور آسائش حاصل ہوگی؛لیکن ان کو سب سے زیادہ  خوشی اور مسرّت اس نعمت سے حاصل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے راضی ہوگئے اور کبھی بھی ان سے ناراض نہیں ہوں گے۔

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنّت میں دخول اور اللہ تعالیٰ کی دائمی رضامندی کا حصول بہت بڑی نعمت ہےاور یہ نعمت ہر مؤمن کے لیے حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں۔ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں تقویٰ اختیار کرے اور ہروقت  اس بات کو ذہن میں رکھے کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور ہر چیز کا حساب دینا ہے۔ جب انسان کے ذہن میں ہمہ وقت اس بات کا استحضار ہوگا، تو وہ اپنی زندگی درست کرےگا اور گناہوں سے اجتناب کرےگا  اور اگر وہ  اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب وکتاب اورہر چیز کی جواب دہی سے غافل ہوجائے، تو وہ راہِ حق سے منحرف ہو جائےگا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب انسان ہر وقت اپنے ذہن میں اس بات کا خیال رکھے کہ قیامت کے دن اس کو اپنے ہر قول وفعل کا حساب دینا ہوگا اور اس سے اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کے متعلق سوال کیا جائے گا، تو وہ آخرت کی تیّاری کرےگا اور اپنی دنیوی زندگی کو شریعت کے مطابق بنائےگا۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …