سورۃ القدر ‎کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ  لَیۡلَۃِ  الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ  فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ  کُلِّ  اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ  الۡفَجۡرِ ﴿۵﴾

بے شک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اُتارا ہے ﴿۱﴾ اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیا ہے ﴿۳﴾ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ﴿۴﴾ اس رات میں فرشتے اور روح القدس (حضرت جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر خیر لے کر اترتے ہیں (دنیا کی طرف) ﴿۵﴾ وہ شب سراپا سلام ہے۔ وہ شب طلوعِ فجر تک رہتی ہے ﴿۶﴾

تفسیر

مفسرین کرام نے اس سورت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا، جس نے ایک ہزار مہینے تک جہاد کیا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر تعجب ہوا اور انہیں اس پر رشک آیا۔

اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ القدر نازل فرمائی، جو کہ اس امّت کے لیے ایک عظیم نعمت اور تحفہ ہے۔ اس امت کو جو خصوصی نعمت اور فضیلت ملی ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی شخص شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرےگا، اس کو ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملےگا (ایک ہزار مہینہ تیراسی (۸۳) سال کے برابر ہوتا ہے)۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾

بے شک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اُتارا ہے ﴿۱﴾

اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو شبِ قدر میں اُتارا ہے۔ دوسری طرف احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے کہ قرآنِ مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیئیس (۲۳) سالوں میں نازل کیا گیا۔

مفسرینِ کرام لکھتے ہیں کہ قرآنِ مجید ماہِ رمضان میں لوحِ محفوظ سے سمائے دنیا (پہلے آسمان) پر شبِ قدر میں نازل کیا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ حسبِ ضرورت تیئس (۲۳) سالوں میں پورا قرآنِ کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتارا گیا۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾

اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیا ہے ﴿۳﴾ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ﴿۴﴾

اس رات کو ”لیلة القدر“ کہا جاتا ہے۔ قدر کے ایک معنی عظمت و شرف کے ہیں اور اس رات کو ”قدر“ سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رات امّت کے لیے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عظمت و شرف حاصل کرنے کا ذریعہ ہے؛ لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خوب محنت و مجاہدہ کرے اور اس رات کی برکات کو حاصل کرے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص انتہائی گنہگار اور خطا کار ہو اور اس نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو انتہائی ذلیل وخوار کر لیا ہو اس کے لیے بھی سنہرا موقع ہے کہ وہ اس مبارک شب میں اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت لگا کر اپنے آپ کو اللہ تعا لیٰ کے نزدیک معزز و مکرّم بنا لے۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾

اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیا ہے ﴿۳﴾ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ﴿۴﴾

مفسّرینِ کرام بیان کرتے ہیں کہ ”قدر“ کے دوسرے معنی ہیں: فیصلہ اور تقدیر۔ اس رات کو لیلة القدر“ (فیصلہ اور تقدیر کی رات) بھی کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ اس رات میں مخلوق کی تقدیر کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کے فیصلے فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں؛ فرشتوں کو بتایا جاتا ہے کہ آئندہ سال کس کی پیدائش ہوگی، کس کا انتقال ہوگا اور کس کو کتنا رزق ملےگا۔

مخلوق کی تقدیر اور فیصلہ کے متعلق دو طرح کی روایتیں ہیں: ایک روایت کے مطابق پندرھویں شعبان (یعنی لیلة البراءت) میں فرشتوں کو مخلوق کی تقدیر کی خبر دی جاتی ہے اور دوسری روایت کے مطابق فرشتوں کو لیلة القدر میں مخلوق کی تقدیر کی خبر دی جاتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں۔

علماء نے دونوں کے درمیان تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ پندرہویں شعبان جس کو لیلة البراءت کہا جاتا ہے اس میں آئندہ سال کے پیش آنے والے امور کے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں کہ کون زندہ رہےگا، کس کی وفات ہوگی، کس کو کتنا رزق ملے گا اور کس کو حج اور عمرہ وغیرہ کی توفیق ملے گی۔ اس قسم کے سارے امور جو مخلوق کے متعلق ہیں وہ شبِ براءت میں طے کیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو ان کی خبر دی جاتی ہے۔

اس کے بعد یہ سارے طے شدہ فیصلے لیلة القدر (شبِ قدر) میں فرشتوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں؛ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور آئندہ سال میں پورا کریں۔

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ  کُلِّ  اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ  الۡفَجۡرِ﴿۵﴾

اس رات میں فرشتے اور روح القدس (حضرت جبرئیل  علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر خیر لے کر اترتے ہیں (زمین کی طرف) ﴿۵﴾ وہ شب سراپا سلام ہے۔ وہ شب طلوعِ فجر تک رہتی ہے ﴿۶﴾

اس مبارک شب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک مزید فضل و کرم یہ ہوتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تمام فرشتوں کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ سے دنیا میں اُترتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ سے مراد وہ آخری مقام ہے آسمانوں میں جہاں تک فرشتوں کی رسائی ہوتی ہے۔ اس مبارک شب میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے دنیا میں تشریف لاتے ہیں، تو ہر مسلمان مرد اور عورت کو سلام کرتے ہیں۔

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”وہ تمام فرشتے، جو سدرۃ المنتہیٰ پر رہتے ہیں، وہ سب کے سب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی معیّت میں آسمانوں سےزمین پر اُترتے ہیں اور ہر مسلمان مرد اور عورت کو سلام کرتے ہیں؛ لیکن وہ شرابی اور خنزیر کا گوشت کھانے والے کو سلام نہیں کرتے ہیں۔“

جو لوگ اس بابرکت رات میں عبادت میں مشغول رہتے ہیں، یقیناً وہ سعادت مند اور خوش نصیب لوگ ہیں، کیوں کہ آسمان سے اُترنے والے فرشتے ان کے لیے رحمت کی دُعا کرتے ہیں اور ان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے خصوصی فضل وکرم کی دُعا کرتے ہیں اور اس مبارک شب میں جو لوگ عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے تمام چھوٹے گناہوں کو بخش دیتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جو لوگ شبِ قدر میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ عبادت کرے، ان کے سارے پچھلے (چھوٹے) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ”تم پر ایک بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ وہ مہینے ایسا ہے کہ اس میں ایک شب ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس رات کی برکتوں سے محروم رہ گیا، یقیناً وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہ گیا اور حقیقی محروم ہی اس رات کی بھلائیوں سے محروم رہتا ہے۔“

لہذا ہر شخص کو چاہیئے کہ اس عظیم شب میں عبادت میں مشغول رہے اور تمام قسم کے گناہوں سے اجتناب کرے۔ اسی طرح اس کو چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے رو رو کر اپنی مغفرت اور ہدایت کے لیے دُعا کرے۔

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ  کُلِّ  اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ  الۡفَجۡرِ﴿۵﴾

اس رات میں فرشتے اور روح القدس (حضرت جبرئیل  علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر خیر لے کر اترتے ہیں (زمین کی طرف) ﴿۵﴾ وہ شب سراپا سلام ہے۔ وہ شب طلوعِ فجر تک رہتی ہے ﴿۶﴾

ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم اگر مجھے لیلۃ القدر مل جائے، تو مجھے بتائیے کہ کس چیز کے لیے دعا کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ یہ دُعا کرے اور الله تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے

اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ

اے اللہ !بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے اور معاف کرناتجھے پسند ہے؛لہذا  تو مجھے معاف فرما۔

اس دُعا کے ذریعہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں ہمیشہ الله تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنی چاہیئے اور ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ ہم معصوم ہیں اور گناہوں سے پاک ہیں۔

شبِ قدر کون سی رات میں ہوتی ہے؟

امت کو شبِ قدر کی تاریخ متعین طور پر نہیں بتائی گئی ہے؛ البتہ بعض روایات میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے امت کو پورے ماہِ رمضان میں شبِ قدر کو تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ بعض روایات میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں میں شبِ قدر کو تلاش کرنے کا حکم دیا جبکہ بعض دوسری روایات میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں شبِ قدر کو تلاش کرنے کا حکم دیا۔

علمائے کرام لکھتے ہیں کہ شبِ قدر ماہِ رمضان کے کسی بھی حصہ میں ہو سکتی ہے؛ لیکن عموماً لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اکثر وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …