حقیقی بخیل

عن حسين بن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: البخيل الذي من ذكرت عنده فلم ‏يصل علي (سنن الترمذي، الرقم: ۳۵٤٦، وقال هذا حديث حسن صحيح غريب)‏

حضرت حسین بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حقیقی بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا تذکرہ کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔

ایک حدیث حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا

کثیر بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔

ایک شخص ان کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں مدینہ منورہ سے صرف ایک حدیث کی وجہ سے آیا ہوں، میں نے سنا ہے کہ وہ آپ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کوئی اور تجارتی کام نہیں تھا؟

انہوں نے کہا: نہیں۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ کوئی دوسری غرض تو نہ تھی؟

کہا: نہیں۔ صرف حدیث ہی معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص کوئی راستہ علم حاصل کرنے کے لیے چلتا ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کے لیے جنّت کا راستہ سہل فرما دیتے ہیں اور فرشتے اپنے پَر طالب علم کی خوشنودی کے واسطے بچھا دیتے ہیں اور طالب علم کے لیے آسمان زمین کے رہنے والے استغفار کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مچھلیاں جو پانی میں رہتی ہیں، وہ بھی استغفار کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسا کہ چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بناتے؛ بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ جو شخص علم کو حاصل کرتا ہے، وہ ایک بڑی دولت کو حاصل کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، فضائل اعمال، حکایت صحابہ، ص ۹۵)

حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کی خدمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے

حضرت ابو بکر صدّیق رضی الله عنہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی معیّت میں سفرِ ہجرت کا واقعہ بیان فرماتے ہیں:

ہم رات بھر چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی؛ یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا اور راستہ خالی ہو گیا، اس میں کوئی گذرنے والا دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی سایہ دار جگہ مل جائے؛ تاکہ ہم وہاں آرام کر سکیں، تو ہمیں ایک بڑی چٹان نظر آیی؛ جہاں ہم دھوپ سے بچنے کے لیے پناہ لے سکیں۔

پھر ہم چٹان کے پاس (اس کے سائے میں آرام کرنے کے لیے) رک گئے اور میں نے اپنے ہاتھوں سے زمین کو ہموار کیا؛ تاکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم وہاں لیٹ کر آرام کر سکیں۔

پھر میں نے چمڑے کی کھال بچھا دی اور آپ سے کہا کہ یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! آپ آرام فرمائیں، میں آپ کے ارد گرد کی جگہوں پر نظر رکھوں گا۔

جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے، تو میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے دیکھنے گیا کہ کیا میں کسی کو دیکھ سکتا ہوں، جو ہمیں ڈھونڈ رہا ہو، تو اسی اثنا میں مجھے ایک چرواہا نظر آیا، جس کے پاس کچھ بکریاں تھیں۔ وہ چٹان کی طرف آرہا تھا؛ تاکہ وہ بھی سائے میں آرام کرے، جیسا کہ ہم آرام کر رہے تھے۔

میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا مالک کون ہے؟ اس نے مجھے مکّہ مکرّمہ کے ایک شخص کا نام بتایا، جس سے میں واقف تھا (چوں کہ اس زمانہ کا دستور تھا کہ جانوروں کے مالکان مسافروں اور راہ گیروں کو اپنے جانوروں کا دودھ پینے کی اجازت دیتے تھے؛ اس لیے حضرت ابو بکر صدّیق رضی الله عنہ نے اس چرواہے سے دودھ مانگا)۔

حضرت ابو بکر صدّیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

میں نے چرواہے سے سوال کیا کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟

اس نے کہا: ہاں۔

پھر میں نے کہا: کیا تم میرے لیے دودھ نکال سکتے ہو؟

اس نے کہا: ہاں۔

میں نے اس سے کہا کہ آپ اس بات کا اہتمام کریں کہ آپ پہلے بکری کے تھن کو دھو لیں اور انہیں غبار، بال اور دیگر گندگی سے صاف کریں۔

چرواہے نے ایک برتن میں ایک بکری کا دودھ نکالا اور میرے پیالے میں ڈال دیا۔ میں نے اس پیالے میں تھوڑا سا پانی ملایا؛ تاکہ وہ گرم دودھ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے، پھر میں دودھ لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔

میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جگانا نہیں چاہتا تھا اور آپ کی نیند میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا؛ لیکن جب میں آپ کے پاس پہونچا، تو میں نے دیکھا کہ آپ بیدار تھے۔ میں نے عرض کیا: اے الله کے رسول! دودھ نوش فرمائیے۔

حضرت ابو بکر صدّیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا، جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ (بخاری، مسلم)

اس واقعہ سے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے وہ عظیم محبت نظر آتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دودھ کا مزہ چکھتے دیکھ کر ان کے دل کو بہت خوشی ہوئی؛ جب کہ وہ خود دودھ نہیں پی رہے تھے اور خود اس سے مزہ نہیں لے رہے تھے۔

یہ محبت ماں کی محبت سے مشابہت رکھتی ہے کہ جب ماں بچے کو کھانا کھاتے ہوئے اور مزہ لیتے ہوئے دیکھتی ہے، تو وہ نظارہ خود اس کے دل کو خوشی دیتا ہے۔

يَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّم  دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ

Source: https://ihyaauddeen.co.za/?p=6160, http://ihyaauddeen.co.za/?p=5694

Check Also

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حصول ‏

”جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت ضروری ہو گئی“...