سورۃ العلق کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ  یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ کَلَّاۤ  اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ  لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾ اَنۡ  رَّاٰہُ  اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾ اِنَّ  اِلٰی رَبِّکَ  الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾  اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾ اَرَءَیۡتَ  اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۱﴾ اَوۡ  اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۲﴾ اَرَءَیۡتَ  اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾ اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾ کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾ فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۷﴾ سَنَدۡعُ  الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۸﴾ کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿۱۹﴾

(اے پیغمبر) آپ (قرآن) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جس نے پیدا کیا (تمام مخلوق کو) ﴿۱﴾ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ﴿۲﴾ آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے ﴿۳﴾ جس نے قلم سے تعلیم دی ﴿۴﴾ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہیں جانتا تھا ﴿۵﴾ سَچ مُچ بے شک آدمی حد سے نکل جاتا ہے ﴿۶﴾اس وجہ سے کہ وہ اپنے کو مستغنی (بے نیاز) دیکھتا ہے ﴿۷﴾ (اے مخاطب) بے شک تیرے رب ہی کی (اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا، جو شخص (ابو جہل) ایک بندہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو منع کرتا ہے، جب وہ نماز پڑھتا ہے﴿۹﴾﴿۱۰﴾ (اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ بندہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہدایت پر ہو ﴿۱۱﴾ یا وہ تقویٰ کی تعلیم دیتا ہو ﴿۱۲﴾ (اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ شخص (ابو جہل) جھٹلاتا ہو اور روگردانی کرتا ہو ﴿۱۳﴾ کیا اس شخص کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ﴿۱۴﴾ ہرگز نہیں اگر یہ شخص باز نہیں آئےگا، تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے وہ پیشانی کے بال جو جھوٹے اور گنہگار ہیں ﴿۱۵﴾ ﴿۱۶﴾ سو یہ اپنی مجلس والوں کو بُلا لیں ﴿۱۷﴾ ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بُلا لیں گے ﴿۱۸﴾ ہرگز نہیں، آپ اس کا کہنا نہ مانیئے اور آپ نماز پڑھتے رہیئے اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرتے رہیئے ﴿۱۹﴾         (معمولی تبدیلی کے ساتھ بیان القرآن سے ماخوذ ہے)

تفسیر

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ  یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

(اے پیغمبر) آپ (قرآن) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جس نے پیدا کیا  (تمام مخلوق کو) ﴿۱﴾ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا  ﴿۲﴾ آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے ﴿۳﴾ جس نے قلم سے تعلیم دی ﴿۴﴾ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہیں جانتا تھا ﴿۵﴾

یہ پانچ آیتیں پورے قرآن مجید میں سے سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کا سلسلہ سچے خوابوں سے شروع ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں جو بھی خواب نظر آتا تھا، وہ دن میں بعینہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر و نمودار ہو جاتا تھا۔

پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل میں مخلوق سے یکسوئی اور خلوت میں عبادت کرنے کا قوی داعیہ پیدا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یکسوئی اور گوشہ نشینی پسندیدہ ہوئی؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِحِرا میں (جو جبلِ نور پر ہے) خلوت و تنہائی میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت و طاعت کرنے لگیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ توشہ لے جاتے اور کئی کئی دنوں تک غارِ حرا میں تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس دن تک غارِ حِرا میں قیام کرتے اور کبھی بیس دن قیام کرتے اور کبھی آپ ایک ماہ تک غارِ حِرا میں ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت گزارتے۔

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حِرا میں تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نمودار ہوئے اور آپ کو مخاطب کر کے فرمایا: إقرأ (آپ پڑھیے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ما أنا بقارئ (میں نہیں پڑھ سکتا ہوں) حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس قدر زور سے بھینچا کہ آپ درد محسوس کرنے لگیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو چھوڑ دیا اور دوبارہ فرمایا: إقرأ (آپ پڑھیے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا : ما أنا بقارئ (میں نہیں پڑھ سکتا ہوں) حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پھر آپ کو زور سے دبایا اور چھوڑ دیا۔ پھر تیسری بار آپ سے فرمایا: إقرأ (آپ پڑھیے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار پھر وہی جواب دیا: ما أنا بقارئ (میں نہیں پڑھ سکتا ہوں) پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو زور سے دبایا اور مندرجہ بالا پانچ آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ یہی وہ وقت تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوّت سے سرفراز فرمائے گئے۔

حضرت جبرئیل علیہ السلام کی اس پہلی ملاقات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ آپ اس بات کا خیال کر کے انتہائی متفکِّر تھے کہ میں نبوّت کی عظیم ذمہ داری کو کیسے ادا کروں گا؟ گھر پہونچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے غارِ حِرا کا پورا واقعہ بیان کیا۔ اور نبوّت کے بارے میں ان کی فکر کو ذکر فرمایا ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلِّی دی اور اطمینان دلایا کہ آپ فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اعلیٰ اخلاق و کردار اور اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے آپ کی دستگیری ہمیشہ فرمائیں گے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوش خبری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ناکام نہ ہونے دیں گے، اللہ تعالیٰ کی قسم ! آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، ناداروں اور مصیبت زدہ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بے سہارا لوگوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصائب و حوادث کے شکار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری شریف)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ان تسلِّی بخش کلمات کو سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راحت محسوس کی اور آپ کا غم دور ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے انسان ہیں جو  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر مشرّف باسلام ہوئیں۔

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾

(اے پیغمبر) آپ (قرآن) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جس نے پیدا کیا (تمام مخلوق کو) ﴿۱﴾ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ﴿۲﴾

اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ قرآنِ پاک کی تلاوت “بسم الله” سے (اللہ تعالیٰ کے نام سے) شروع کریں، لہذا ہمیں بھی قرآنِ پاک کی تلاوت کا آغاز “بسم الله الرحمن الرحیم” سے کرنا چاہیئے۔

نیز ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف انسان کے سامنے کیا اور ان کو یہ خبر دی ہے کہ وہ ہی کائنات میں سے ہر چیز کا خالق ہے۔ مزید اللہ ربّ العزّت نے انسان کو اس کی تخلیق کی ابتدائی حالت اور اصلیّت یاد دلائی ہے کہ انسان در اصل خون کا ناپاک لوتھڑا تھا؛ مگر اسی ناپاک خون سے اللہ تعالیٰ نے اس کو خوبصورت ترین شکل و صورت عطا کی اور اس کو اتنی قوّت و صلاحیّت دی کہ اگر وہ دین کی محنت و مجاہدہ کرے، تو وہ صلاح و تقو ی میں فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾

آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے ﴿۳﴾

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ قرآن کی تلاوت کا حکم دیا ہے، نیز یہ بیان کیا ہے کہ وہ انتہائی کریم ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت “کریم” کا تذکرہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انسان صرف کرمِ الٰہی اور توفیقِ الٰہی سے قرآنِ کریم کی تلاوت اور ذکر اللہ کر سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان پر فضل و کرم نہ فرمائے، تو انسان کوئی بھی خیر و بھلائی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ  یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

جس نے قلم سے تعلیم دی ﴿۴﴾ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہیں جانتا تھا  ﴿۵﴾

اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم  کے ذریعہ سے علم عطا فرمایا، جس کے ذریعہ سے وہ دین میں ترقّی کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر سکتا ہے؛ لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو قلم کے بغیر بھی تعلیم دے سکتے ہیں؛ لہذا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متعدد قوّتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں؛ جیسے کہ سننے کی طاقت، دیکھنے کی قدرت اور سمجھنے کی صلاحیّت عطا فرمائی۔ ان تمام چیزوں کے ذریعہ انسان علم حاصل کرتا ہے اور صحیح نتیجہ تک پہونچتا ہے۔

کَلَّاۤ  اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ  لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾ اَنۡ  رَّاٰہُ  اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾

سَچ مُچ بے شک آدمی حد سے نکل جاتا ہے ﴿۶﴾ اس وجہ سے کہ وہ اپنے کو مستغنی (بے نیاز) دیکھتا ہے ﴿۷﴾

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتیں اور قوّتیں عطا فرمائی، جن کے ذریعہ وہ علم و فہم حاصل کرتا ہے؛ لیکن انسان اللہ تعالیٰ کو اور اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور وہ اپنی کامیابی اور ترقّی اپنی محنت اور مجاہدہ کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ سے پورے طور پر غافل ہو جاتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کا غلام بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی میں زندگی گزارتا ہے اور بالآخر وہ شریعت کے تمام حدود و قیود سے آگے نکل جاتا ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ انسان کی طغیانی، سرکشی اور احکامِ الٰہی سے روگردانی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز سمجھتا ہے۔ وہ اس غلط زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جب اس کے پاس طاقت اور قوّت ہے اور وہ مال و دولت کا مالک ہے، تو وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اور اسے کسی کی بات سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی ضعف و کمزوری کو یاد رکھے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اس کو ناپاک خون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا اور حب تک انسان کو یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر اس پر نظرِ کرم اور عنایت فرمائی کہ ناپاک خون کے لوتھڑے سے اس کو پیدا فرمایا (اور پوری زندگی اس پر فضل و کرم فرمایا) تو وہ صراطِ مستقیم اور سیدھے راستہ پر قائم رہےگا۔

اس آیتِ کریمہ میں جس شخص کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ ابو جہل ہے، جو اپنے کو مستغنی سمجھتا تھا اور تمام حدود سے آگے بڑھ چکا تھا۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عزّت و شرافت، مال و دولت اور شہرت اور تمام نعمتیں عطا کی تھیں؛ لیکن اس کے باوجود اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اپنی تمام صلاحیتوں اور نعمتوں کو اپنا ذاتی کمال سمجھا اور باوجود یہ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تھا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا انکار کیا اور دن و رات اسلام کے خلاف سازش کی۔ اس کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی برحق ہونا بالکل واضح تھا؛ لیکن اس نے صرف انانیت اور تکبّر کی وجہ سے آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کیا اور حد سے نکل گیا۔

اِنَّ  اِلٰی رَبِّکَ  الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾

(اے مخاطب) بے شک تیرے رب ہی کی طرف سب کا لوٹنا ہوگا   ﴿۸﴾

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ ایک دن تمہیں ضرور مرنا ہے اور تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ضرور واپس جانا ہے یعنی تمہیں اس دنیوی زندگی کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی آخرت کی زندگی کی طرف جانا ہے، جہاں تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا پڑےگا؛ لہذا اخروی زندگی کو ذہن میں رکھو؛ کیوں کہ انسان جب اخروی، زندگی کو ذہن میں رکھتا ہے اس کے لیے محنت کرتا ہے اور وہاں کے حساب کتاب سے ڈرتے ہوئے اس دارِ فانی میں زندگی بسر کرتا ہے، تو وہ ہمیشہ صحیح راہ پر قائم رہےگا۔

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾

(اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا، جو شخص (ابو جہل) ایک بندہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو منع کرتا ہے، جب وہ نماز پڑھتا ہے﴿۹﴾﴿۱۰﴾

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے ایک انتہائی بُرے عمل کو بیان کر رہے ہیں۔ ابوجہل کی یہ عادت تھی کہ جب بھی وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا، تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکنے کی کوشش کرتا تھا۔

ایک مرتبہ ابو جہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم شریف میں نماز پڑھتے دیکھا، تو بہت غصہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ کیا میں نے تم کو نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے تم کو دوبارہ نماز پڑھتے دیکھا، تو (نعوذ باللہ) میں تمہاری گردن کو اپنے پاؤں سے کُچل دوں گا۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلا رہے ہیں کہ اللہ ہرگز ابو جہل کو آپ تک پہونچنے نہیں دےگا اور اس کے بُرے ارادے میں ہرگز اس کو کامیاب نہیں کرےگا، کیوں کہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں۔

اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۱﴾ اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۲﴾ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾ اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾

 (اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ بندہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہدایت پر ہو ﴿۱۱﴾ یا وہ تقویٰ کی تعلیم دیتا ہو ﴿۱۲﴾ (اے مخاطب) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ شخص (ابو جہل) جھٹلاتا ہو اور روگردانی کرتا ہو ﴿۱۳﴾ کیا اس شخص کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ﴿۱۴﴾

اس آیتِ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف فرما رہے ہیں اور واضح طور پر بیان کر رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل رُشدو ہدایت کے راستہ پر ہیں اور لوگوں کو اچھائی اور تقوٰی کا حکم دیتے رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ابو جہل کی سرکشی اور روگردانی کو بیان کیا ہے کہ یہ (ابو جہل) حق کو جھٹلا رہا ہے، اور دینِ اسلام سے مُنھ موڑ رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ”کیا اس شخص کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے؟“ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو جہل کو اس کے کفر اور نافرمانی کے بدلے نہایت درد ناک سزا دیں گے۔

کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾ فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۷﴾ سَنَدۡعُ  الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۸﴾ کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿٪ٛ۱۹﴾

ہرگز نہیں اگر یہ شخص باز نہیں آئےگا،تو ہم پیشانی کے بال جو کہ دروغ (جھوٹ) اور خطا میں آلودہ  بال ہیں پکڑ کر گھسیٹیں گے ﴿۱۵﴾ ﴿۱۶﴾ سو یہ اپنے ہم جلسہ لوگوں کو بلالے ﴿۱۷﴾ ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بُلا لیں گے ﴿۱۸﴾ ہرگز نہیں، آپ اس کا کہنا نہ مانیئے اور آپ نماز پڑھتے رہیئے اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرتے رہیئے﴿۱۹﴾

 

ابو جہل بے انتہا متکبّر اور مغرور شخص تھا۔ اس کو اپنے مال و دولت اور سرداری پر بہت ناز تھا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ اس کو لوگوں کی حمایت و نصرت اور پُشت پناہی حاصل ہے اور وہ جب بھی ان کو بُلائےگا، وہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جائیں گے اور اس کے حکم کو بجا لائیں گے۔ چناں چہ ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ ابو جہل کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا کرنے سے روکےگا، تو اس کا انجام نہایت ہولناک ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کو المناک سزا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ وہ (ابو جہل) آگاہ ہو جائے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئےگا، تو ہم اس کی دروغ اور خطا میں آلودہ پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ اگر وہ چاہے تو  وہ اپنی مجلس والوں کو بُلا لے۔ ہم بھی اپنے خاص فرشتوں کی جماعت کو بُلائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ہمارے فرشتے اس کو ہلاک و برباد کردیں گے اور اس کے خلاف ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں گے۔ اگر وہ آئندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکنے کی کوشش کرےگا، تو ہمارے فرشتے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔

حدیث  شریف  میں  منقول ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے ابو جہل بُرے ارادے سے آگے بڑھا؛ تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک گردن کو اپنے پیر سے کچل دے ؛لیکن ڈر کی وجہ سے فوراً  پیچھے ہٹ گیا۔ جب لوگوں نے اُس کو اِس حالت میں دیکھا، تو پوچھا کہ کیا ہوا؟ پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ تم نے تو قسم کھائی تھی کہ تُو  اس شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی گردن کو پاؤں سے کُچل دےگا۔ اس نے کہا: جوں ہی  میں آگے بڑھا، میں نے آگ کا گڑھا دیکھا اور مجھے کچھ  چیزیں اس میں اُڑتی ہوئی نظر آئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چیزیں  جو اس نے دیکھا وہ  اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے۔اگر وہ آگے قدم بڑھاتا، تو فرشتے اس کے ٹکڑے ٹکڑےکر دیتے۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …