سورة تین کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾ وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾  ثُمَّ  رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ اِلَّا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ  اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۷﴾  اَلَیۡسَ اللّٰہُ  بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۸﴾

قسم ہے انجیر کی اور  زیتون کی ﴿۱﴾ اور طورِسینین کی ﴿۲﴾ اور اس امن والے شہر کی ﴿۳﴾ بےشک ہم نے انسان کو بہت خوب صورت سانچہ میں پیدا کیا ہے ﴿۴﴾ پھر ہم اسے پستوں سے بھی پست کر دیتے ہیں ﴿۵﴾ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، تو ان کے لیے اتنا زیادہ ثواب ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ﴿۶﴾ پھر کون سی چیز تمہیں  قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے ﴿۷﴾ کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں  سے بڑھ کر حاکم نہیں ہیں؟ ﴿۸﴾

تفسیر

وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾ وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ ہٰذَا  الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ﴿۱﴾ اور طورِسینین کی ﴿۲﴾ اور اس امن والے شہر کی ﴿۳﴾

ان تین آیتوں میں اللہ جلّ جلالہ نے چار مقدّس مقامات کی قسمیں کھائی ہیں۔ یہ چاروں مقامات انتہائی بابرکت ہیں اور متعدّد انبیائے کرام علیہم السلام کے لیے ہدایت و رہنمائی کے مراکز رہے ہیں۔ پہلی آیت میں انجیر اور زیتون کا تذکرہ ہے۔ اس سے مراد “فلسطین” ہے، جہاں یہ دونوں پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام نے یہاں دین کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اس جگہ کو ایک خصوصی فضیلت یہ حاصل ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے اور اسی علاقے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعوت الی اللہ کا کام کیا تھا۔

وَطُوۡرِسِیۡنِیۡنَ “ یعنی سینا پہاڑ وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی گئی تھی۔

” الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ “ (پُر امن شہر) اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جہاں پر کسی انسان یا جانور کو قتل کرنا ممنوع ہے۔ شہر مکہ مکرمہ  دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ مقدّس، عظیم اور بابرکت ہے۔ اس شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ نبی آخر الزماں خاتم الانبیاء حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد اور وطن ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ چاروں جگہیں بے پناہ عظمت و حُرمت اور برکتوں کی حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمیں کھائی ہیں۔

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ  اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ ثُمَّ  رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾  اِلَّا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ  اَجۡرٌ غَیۡرُ  مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾

بے شک ہم نے انسان کو بہت خوب صورت ڈھانچہ میں پیدا کیا ہے ﴿۴﴾ پھر ہم اسے پستوں سے بھی پست کر دیتے ہیں ﴿۵﴾ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، تو ان کے لیے اتنا زیادہ ثواب ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ﴿۶﴾

سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مقاماتِ متبرّکہ پر قسمیں کھائی ہیں۔ چار قسمیں کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ “بے شک ہم نے انسان کو سب سے خوب صورت ڈھانچہ میں پیدا کیا ہے ” اس آیتِ کریمہ سے انسان کو یہ پیغام دیا گیا کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مقاماتِ متبرّکہ کو دنیا کی تمام جگہوں پر فوقیّت دی اور ان کو منتخب کر کے انتہائی عظیم اور مبارک بنایا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات میں سے منتخب فرمایا ہے اور اس کو سب سے زیادہ خوب صورت اور حسین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔

لہذا اگر انسان اپنی زندگی کی اصلاح کرے اور ان تعلیمات کی پیروی کرے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ تو وہ فرشتوں کے مقام و مرتبہ سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے؛ لیکن اگر وہ اسلامی تعلیمات سے غافل ہو کر گناہوں میں زندگی گزارے، تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نگاہ میں انتہائی پست اور کم تر ہوگا۔

بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ” اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ “ سے مراد انسان کی وہ جسمانی ہیئت اور قوّت و صلاحیّت ہے جس سے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلوں اور جوانی کے ایّام میں لطف اندوز ہوتا ہے؛ لیکن جوں ہی وہ بوڑھا ہونے لگتا ہے، تو اس کا حسن زائل ہونے لگتا ہے اور اس کی طاقت و قوّت ختم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ انتہائی نحیف لاغر اور ناتواں بن جاتا ہے۔

 لہذا آیتِ بالا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ اگر چہ انسان عمر رسیدہ ہونے کے بعد کمزور اور بے کار ہو جاتا ہے اور کسی کام کے قابل نہیں رہتا ہے؛ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مکرّم و معزّز باقی رہتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال میں اس کے نیک اعمال (جن کو صحت و تندرستی کے زمانہ میں انجام دیتا تھا) مسلسل لکھے جاتے ہیں اور اس کے نیک اعمال آخرت میں بڑھتے رہتے ہیں۔

فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ  ؕ﴿۷﴾  اَلَیۡسَ اللّٰہُ  بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۸﴾

پھر کون سی چیز تمہیں قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے؟ ﴿۷﴾ کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہیں؟ ﴿۸﴾

گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یاد دلایا ہے کہ ہم نے تم کو اپنی تمام مخلوقات سے زیادہ خوب صورت شکل اور انوکھے انداز میں پیدا کیا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بھی بتایا کہ ان کی ترقّی اور کامیابی و کامرانی کا دارومدار صلاح و تقوٰی اور پرہیزگاری والی زندگی پر ہے۔ چناں چہ اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور گناہوں میں زندگی گزارے، تو وہ انتہائی پست اور کم تر بنا دیا جائےگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گرِ جائےگا۔ اسی طرح اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو آگاہ فرما رہے ہیں کہ طاقت و قوّت اور حسن و جمال سے بھر پور زندگی کا مزہ لینے کے بعد بالآخر تمہاری طاقت و قوّت ختم ہو جائےگی اور تم بڑھاپے کو پہنچ جاؤگے؛ لہذا زندگی کے اس انقلاب اور تغیّر سے سبق لو کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک دائمی اور غیر منتہی زندگی آنے والی ہے یعنی آخرت کی زندگی۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے خاتمہ کے بارے میں خبر دے رہے ہیں کہ آخر کار اس کو قبر میں جانا ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب و کتاب کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان تمام چیزوں کے بعد آخر کس چیز کی وجہ سے تم قیامت کے دن کا انکار کر رہے ہو۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان نے اپنی زندگی میں تغیّر و انقلاب دیکھا ہے اور اُس کو اس بات کا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ مر جائےگا، تو وہ اُخروی زندگی کا کیسے انکار کر رہا ہے؟

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …