ماہِ رمضان کے آداب اور سنتیں-۲

(۱) حرام اور مشتبہ چیزوں سے احتراز کریں، خواہ وہ مشتبہ یا حرام چیزیں کھانے پینے سے متعلق ہوں یا عمل سے متعلق ہوں۔

(۲) مندرجہ ذیل چار اعمال بکثرت کریں:

(الف) کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا (یعنی لا الٰه الا الله کا ذکر کرنا)۔

(ب) استغفار کرنا۔

(ج) جنت کا سوال کرنا۔

(د) جہنم سے پناہ مانگنا۔

عن سلمان رضي الله عنه قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان … واستكثروا فيه من أربع خصال خصلتين ترضون بهما ربكم وخصلتين لا غناء بكم عنهما فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم فشهادة أن لا إله إلا الله وتستغفرونه وأما الخصلتان اللتان لا غناء بكم عنهما فتسألون الله الجنة وتعوذون به من النار (الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٤۸۳)

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے تقریر کی، (آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس تقریر میں فرمایا کہ) اس مہینہ میں (ماہ رمضان میں) چار اعمال کثرت سے کرو۔ (ان چار اعمال میں سے) دو عمل ایسے ہیں کہ تم ان کے ذریعہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کروگے اور دوسرے دو عمل ایسے ہیں کہ ان کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ رب کو خوش کرنے والے اعمال کلمہ “لا الٰه الا الله” اور استغفار ہیں اور دو ضروری اعمال (جن کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے) الله تعالیٰ سے جنت کا سوال کرنا اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔

(۳) ماہِ رمضان میں خوب دعائیں کریں۔ روزہ دار کی دعا ضرور قبول کی جاتی ہے، خاص طور پر افطار سے پہلے جو دعا مانگی جاتی ہے، وہ قبول ہوتی ہے۔

عن أبي هريرة رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاثة لا ترد دعوتهم الصائم حتى يفطر والإمام العادل ودعوة المظلوم يرفعها الله فوق الغمام ويفتح لها أبواب السماء ويقول الرب: وعزتي لأنصرنك ولو بعد حين (سنن الترمذي، الرقم: ۳۵۹۸)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے: (۱) روزہ دار کی دعا، تا آں کہ وہ افطار کر لے (۲) عادل بادشاہ کی دعا (۳) مظلوم کی دعا (بد دعا) الله تعالیٰ اس کو بادلوں کے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں اور الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری عزت کی قسم! میں ضرور بالضرور تمہاری مدد کروں گا، اگر چہ کچھ مدّت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: للصائم عند إفطاره دعوة مستجابة وكان عبد الله بن عمرو إذا أفطر دعا أهله وولده ودعا (شعب الايمان، الرقم: ۳٦۲٤)

حضرت عمرو رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ (راوی فرماتے ہیں کہ) حضرت عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ جب افطار کا وقت ہوتا، تو وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بلاتے تھے اور (ان سب کے ساتھ) دعا کرتے تھے۔

(٤) ماہِ رمضان کو شہر القرآن (قرآن کا مہینہ) کہا جاتا ہے؛ لہذا اس ماہ میں جتنا زیادہ ہو سکے، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا چاہیئے۔ حافظوں کو غیر حافظوں سے زیادہ قرآن پاک پڑھنا چاہیئے۔

(٥) روزہ ایک عظیم عبادت ہے؛ لہذا روزہ کی حالت میں ہر اس عمل سے احتراز ضروری ہے، جس سے روزہ کا ثواب ضائع ہو جائے؛ چنانچہ روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے لایعنی کام اور فضول بات سے کلی طور پر اجتناب کرے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر (سنن ابن ماجة، الرقم: ۱٦۹٠)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ سے بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور بہت سے رات کے نماز پڑھنے والے (رات کے عبادت گزار) ایسے ہیں کہ ان کو رات کی عبادت سے جاگنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (صحیح البخاري، الرقم: ۱۹٠۳)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو الله تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔

(٦) روزہ کی حالت میں گالی گلوچ، جھگڑا اور بیہودہ گفتگو سے احتراز ضروری ہے۔

اگر کوئی آدمی روزہ دار سے جھگڑا کرنا چاہے، تو روزہ دار کو چاہیئے کہ وہ اس کو اچھے انداز میں کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں (یعنی روزہ دار کے لیے جھگڑا کرنا بالکل مناسب نہیں ہے)۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب فإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني امرؤ صائم (صحیح البخاري، الرقم: ۱۹٠٤)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو، تو وہ فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور مچائے (یعنی جاہلانہ طریقہ پر شور مچاتے ہوئے بات نہ کرے)۔ اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرے یا اس سے جھگڑا کرے، تو وہ اس سے کہہ دے میں روزہ دار ہوں۔

(٧) رمضان المبارک نمازِ تہجد پڑھنے کا بہترین موقع ہے؛ اس لیے کہ سحری کے لیے جاگنا ہی ہے۔

(۸) رمضان المبارک سے قبل تمام مصروفیات سے فارغ ہونے کی کوشش کریں؛ تاکہ آپ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں۔

عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال يوما وحضر رمضان: أتاكم رمضان شهر بركة يغشاكم الله فيه فينزل الرحمة ويحط الخطايا ويستجيب فيه الدعاء ينظر الله تعالى إلى تنافسكم فيه ويباهي بكم ملائكته فأروا الله من أنفسكم خيرا فإن الشقي من حرم فيه رحمة الله عز و جل (رواه الطبراني ورواته ثقات إلا أن محمد بن قيس لا يحضرني فيه جرح ولا تعديل کما فی الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٤۹٠)

حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ رمضان آچکا ہے، جو خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں الله تعالیٰ تمہیں (اپنی رحمتوں اور برکتوں سے) ڈھانپ لیتے ہیں۔ رحمت نازل فرماتے ہیں، گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور دعا قبول فرماتے ہیں۔ الله تعالیٰ اس ماہ میں نیک کاموں میں تمہاری مسابقت کو دیکھتے ہیں اور اپنے فرشتوں کے سامنے تمہارے اوپر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں؛ لہذا الله تعالیٰ کو اپنے اچھے اور نیک کام دکھاؤ؛ بے شک بدنصیب وہ ہے، جو اس ماہ میں (ماہ رمضان میں) الله تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=6548


Check Also

ماہِ رمضان کے سنن و آداب- ۱

(۱) رمضان سے پہلے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیں۔ بعض بزرگانِ دین رمضان کی تیاری رمضان سے چھ ماہ قبل شروع فرما دیتے تھے...