قرض معاف کرنے سے زکوٰۃ کا حکم

سوال:- اگر قرض خواہ قرض دار کو قرض اور تجارت والے دین سے معاف کر دے‏ اور معاف کرتے وقت اس نے زکوٰۃ ادا کرنے کی نیّت کی، تو کیا محض قرض اور دین کو زکوٰۃ کی نیّت سے معاف کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوگی؟

اور اگر قرض و تجارت والے دین کی زکوٰۃ کئی سالوں تک ادا نہیں ہوئی، تو کیا قرض اور  دین کو زکوٰۃ کی نیّت سے  معاف کرنے سے گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائےگی؟

الجواب حامدًا و مصلیًا

اس مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے۔

اگر قرض دار غریب آدمی ہے اور قرض خواہ اپنا قرض اور تجارت والا   دین معاف کر دے، ‏(‏تو چوں کہ غریب آدمی زکوٰۃ کا مستحق ہے)‏ تو قرض خواہ کا اپنا قرض و دین معاف کرنے سے زکوٰۃ اپنے مستحق کو پہنچ گئی؛ لہذا  اس مال پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی ‏ نہ تو موجودہ سال کے لئے  نہ پچھلے سالوں کےلئے۔

اگر قرض خواہ کسی مالدار آدمی کا قرض اور تجارت والا دین معاف کر دے، تو قرض اور دین کی زکوٰۃ موجودہ سال کے لئے فرض نہیں ہوگی۔ (یہ اس صورت میں ہے، جہاں اس کی زکوٰۃ کی تاریخ ابھی تک نہیں آئی)؛ لیکن قرض اور دین کی زکوٰۃ گذشتہ سالوں کے لئے معاف نہیں ہوگی؛ بلکہ وہ  اس کے ذمہ فرض رہےگی۔

فقط واللہ تعالی اعلم

ولو أبرأ رب الدين المديون بعد الحول فلا زكاة سواء كان الدين قويا أو لاخانية وقيده في المحيط بالمعسر أما الموسر فهو استهلاك فليحفظ بحر قال في النهر وهذا ظاهر في أنه تقييد للإطلاق وهو غير صحيح في الضعيف كما لا يخفى (الدر المختار ۲/۳٠۷)

أما إذا أبرأ المديون منه بعد الحول فإنه لا زكاة عليه فيه سواء كان ثمن مبيع أو قرضا أو غير ذلك صرح به قاضي خان في فتاويه لكن قيده في المحيط بكون المديون معسرا أما لو كان موسرا فهو استهلاك وهو تقييد حسن يجب حفظه (البحر الرائق ۲/۲۲۵)

لو كان له دين على فقير فأبرأه منه سقط زكاته عنه نوى به عن الزكاة أو لم ينو؛ لأنه كالهلاك فلو أبرأه عن البعض سقط زكاة ذلك البعض لما قلنا وزكاة الباقي لا تسقط عنه ولو نوى به الأداء عن الباقي لأن الساقط ليس بمال والباقي يجوز أن يكون مالا فكان الباقي خيرا منه فلا يجوز الساقط عنه وكذا لا يجوز أداء الدين عن العين بخلاف العكس ولو كان الدين على غني فوهبه منه بعد وجوب الزكاة عليه قيل يضمن قدر الواجب عليه وقيل لا يضمن والله أعلم (تبيين الحقائق ۱/۲۵۸)

ولو كان له دين على فقير فأبرأه عنه سقط عنه زكاته نوى به عن الزكاة أو لا لأنه كالهلاك ولو أبرأه عن البعض سقط زكاة ذلك البعض لما قلنا وزكاة الباقي لا تسقط ولو نوى به إلا الأداء عن الباقي كذا في التبيين ولو كان من عليه الدين غنيا فوهبه منه بعد الحول ففي رواية الجامع يضمن قدر الزكاة وهو الأصح هكذا في محيط السرخسي (الفتاوى الهندية ۱/۱۷۱)

دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین

اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ

Source: http://muftionline.co.za/node/40

Check Also

نئے اسلامی سال کی دعا

سوال:- نئے اسلامی سال یا نئے اسلامی ماہ کے آغاز میں کوئی دعا حدیث سے ثابت …