نمازِ جنازہ کے فرائض اور سنن

نمازِ جنازہ میں دو چیزیں فرض ہیں:

(۱) چاروں تکبیریں کہنا۔

(۲) کھڑے ہو کر نمازِ جنازہ پڑھنا الاّ یہ کہ کوئی معذور ہو، تو اس کے لیے بیٹھ کر پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔ [۱]

نمازِ جنازہ میں تین سنتیں ہیں:

(۱) ثنا پڑھنا۔

(۲) درود پڑھنا۔

(۳) میّت کے لیے دعا کرنا۔ [۲]

نمازِ جنازہ سے متعلق چند اہم مسائل

(۱) نمازِ جنازہ میں ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہے یعنی چار تکبیریں عام نمازوں کی چار رکعتوں کے قائم مقام ہیں، لہذا اگر ایک بھی تکبیر فوت ہو جائے، تو نمازِ جانزہ ادا نہیں ہوگی۔ [۳]

(۲) جس طرح فرض نماز میں کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے اس آدمی کے لیے جو کھڑے ہو کر پڑھنے پر قادر ہو، اسی طرح نمازِ جنازہ بھی کھڑے ہو کر ادا کرنا فرض ہے اس آدمی کے لیے جو کھڑے ہونے پر قادر ہو، لہذا اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر نمازِ جنازہ ادا کرے، تو اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوگی۔

(۳) نمازِ جنازہ میں رکوع، سجدہ اور قعدہ نہیں ہے۔ [۴]

(۴) نمازِ جنازہ اور عام نمازوں میں دو اہم فرق:

(ا) نمازِ جنازہ کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، جب کہ دیگر پانچ وقت کی فرض نمازوں کے اوقات مقرر ہیں۔ لہذا جس وقت بھی جنازہ حاضر ہو، نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، یہاں تک نمازِ فجر اور نمازِ عصر کے بعد بھی نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ البتہ اوقاتِ مکروہ یعنی سورج نکلنے، ڈوبنے اور زوال کے وقت نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیئے۔ سورج ڈوبنے سے مراد وہ وقت ہے جب سورج کا رنگ بدلنے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔ [۵]

(ب) اگر کوئی شخص(میّت کے ولی کے علاوہ) وضو کی حالت میں نہ ہو اور اس کو یہ خطرہ محسوس ہو کہ اگر وہ وضو میں مشغول ہوگا، تو اس کی نمازِ جنازہ چھوٹ جائے گی، تو اس کے لیے تیمم کر کے نمازِ جنازہ ادا کرنا جائز ہے، جب کہ پنچ وقتہ نمازوں میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر چہ نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو، پھر بھی تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ وضو کر کے نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اور اگر دورانِ وضو نماز کا وقت نکل جائے، تو قضا کر لے۔ [۶]

عن ابن عباس قال إذا خفت أن تفوتك الجنازة وأنت على غير وضوء فتيمم وصل [۷]

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب تم باوضو نہ ہو اور اس بات کا خطرہ محسوس ہو کہ نمازِ جنازہ چھوٹ جائےگی، تو تیمم کر کے نمازِ جنازہ پڑھ لو۔

(۵) امام اور مقتدی دونوں نمازِ جنازہ کی تکبیریں اور دعائیں پڑھیں گے۔ امام اور مقتدی کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ امام بلند آواز سے چاروں تکبیریں کہیں گے اور بلند آواز سے سلام پھیریں گے، جب کہ مقتدی آہستہ تکبیریں کہیں گے اور آہستہ سلام پھیریں گے۔ نمازِ جنازہ کے بقیہ اذکار (ثنا،درود اور دعا) امام اور مقتدی دونوں پست آواز سے پڑھیں گے۔ [۸]

(۶) نمازِ جنازہ میں کم از کم تین صفیں بنانا مستحب ہے۔ چناں چہ اگر نمازِ جنازہ میں صرف سات افراد موجود ہوں، تو مذکورہ ذیل طریقے کے مطابق تین صفیں بنانا مستحب ہوگا: ایک آدمی امام بن جائے، تین آدمی پہلی صف میں کھڑے ہو جائیں، دو آدمی دوسری صف میں کھڑے ہو جائیں اور ایک آدمی تیسری صف میں کھڑا ہو جائے۔ [۹]

 عن مرثد بن عبد الله اليزني قال كان مالك بن هبيرة إذا صلى على جنازة فتقال الناس عليها جزاؤهم ثلاثة أجزاء ثم قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من صلى عليه ثلاثة صفوف فقد أوجب [۱۰]

حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ جب بھی نمازِ جنازہ پڑھاتے اور لوگوں کی تعداد کم دیکھتے، تو لوگوں کو تین حصّوں میں تقسیم فرما دیتے پھر کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس میت کی نمازِ جنازہ میں تین صف کے لوگ شامل ہیں تو اس کے لیے جنت ثابت ہو جاتی ہے۔

(۷) جن چیزوں کی وجہ سے عام نمازیں ٹوٹ جاتی ہیں، ان ہی چیزوں کی وجہ سے نمازِ جنازہ بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ [۱۱] اس سلسلے میں عام نمازوں  اور نمازِ جنازہ  میں صرف دو فرق ہیں :

(الف) اگر کوئی کسی عام نماز میں آواز سے ہنسے، تو عام نماز ٹوٹ جائے گی اور وضو بھی ٹوٹ جائے گا؛ لیکن اگر کوئی نمازِ جنازہ میں آواز سے ہنسے، تو صرف نماز ٹوٹ جائےگی،وضو نہیں ٹوٹےگا۔[۱۲]

(ب) اگر عام نماز میں کوئی عورت کسی مرد کے پہلو میں کھڑی ہو جائے، تو مرد کی نماز ٹوٹ جائے گی؛ لیکن اگر نمازِ جنازہ میں کوئی عورت کسی مرد کے پہلو میں کھڑی ہو جائے، تو مرد کی نماز نہیں ٹوٹےگی۔ [۱۳]

(۸) اگر امام  نمازِ جنازہ میں چار سے زائد تکبیریں کہے، تو زائد تکبیر میں سب مقتدی امام کی اقتدا نہ کریں؛ بلکہ وہ خاموش رہیں اور جب امام سلام پھیرے، تو ان کے ساتھ نماز پوری کر لیں۔ البتہ اگر سب مقتدی امام کی زائد تکبیریں نہ سن رہے ہوں، بلکہ مُکبّر کی آواز سن رہے ہوں تو اس صورت میں سب مقتدی جب مکبّر کی زائد تکبیر سنے تو اس کو چاہیئے کہ وہ زائد تکبیر پڑھے اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدی کو معلوم نہیں ہے کہ کونسی تکبیر امام کی تکبیر ہے۔ [۱۴]

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1833


 

[۱] ( وركنها ) شيئان ( التكبيرات ) الأربع فالأولى ركن أيضا لا شرط فلذا لم يجز بناء أخرى عليها ( والقيام ) فلم تجز قاعدا بلا عذر قال الشامي : قوله ( فلم تجز قاعدا ) أي ولا راكبا قوله ( بلا عذر ) فلو تعذر النزول لطين أو مطر جازت راكبا ولو كان الولي مريضا فصلى قاعدا والناس قياما أجزأهم عندهما وقال محمد تجزي الإمام فقط حلية (رد المحتار ۲/۲٠۹)

[۲] ( وسنتها ) ثلاثة ( التحميد والثناء والدعاء فيها ) ذكره الزاهدي قال الشامي : قوله ( التحميد والثناء ) كذا في البحر عن المحيط ومقتضى قول الشارح ثلاثة أن الثناء غير التحميد مع أنه فيما يأتي فسر الثناء بقوله سبحانك اللهم وبحمدك فعلم أن المراد بهما واحد على ما يأتي بيانه فكان عليه أن يذكر الثالث الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم (رد المحتار ۲/۲٠۹)

[۳] وركنها التكبيرات والقيام لأن كل تكبيرة منها قائمة مقام ركعة (البحر الرائق ۲/۱۸۳)

وصلاة الجنازة أربع تكبيرات ولو ترك واحدة منها لم تجز صلاته هكذا في الكافي (الفتاوى الهندية ۱/۱٦٤)

[٤] قال الشامي : قوله ( ينوي الصلاة لله الخ ) كذا في المنية قال في الحلية وفي المحيط الرضوي والتحفة والبدائع ينبغي أن ينوي صلاة الجمعة وصلاة العيدين وصلاة الجنازة وصلاة الوتر لأن التعيين يحصل بهذا اهـ وأما ما ذكره المصنف فليس بضربة لازب ويمكن أن يكون إشارة إلى أنه لا ينوي الدعاء للميت فقط نظرا إلى أنه لا ركوع فيها ولا سجود ولا قراءة ولا تشهد اهـ (رد المحتار ۱/٤۲۳)

[۵] فصل وأما بيان ما يكره فيها فنقول تكره الصلاة على الجنازة عند طلوع الشمس وغروبها ونصف النهار لما روينا من حديث عقبة بن عامر أنه قال ثلاث ساعات نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصلي فيها وأن نقبر فيها موتانا والمراد من قوله أن نقبر فيها موتانا الصلاة على الجنازة دون الدفن إذ لا بأس بالدفن في هذه الأوقات فإن صلوا في أحد هذه الأوقات لم يكن عليهم إعادتها لأن صلاة الجنازة لا يتعين لأدائها وقت ففي أي وقت صليت وقعت أداء لا قضاء ومعنى الكراهة في هذه الأوقات يمنع جواز القضاء فيها دون الأداء كما إذا أدى عصر يومه عند تغير الشمس على ما ذكرنا فيما تقدم ولا تكره الصلاة على الجنازة بعد صلاة الفجر وبعد صلاة العصر قبل تغير الشمس لأن الكراهة في هذه الأوقات ليست لمعنى في الوقت فلا يظهر في حق الفرائض لما بينا فيما تقدم ولو أرادوا أن يصلوا على جنازة وقد غربت الشمس فالأفضل أن يبدؤا بصلاة المغرب ثم يصلون على الجنازة لأن المغرب آكد من صلاة الجنازة فكان تقديمه أولى ولأن في تقديم الجنازة تأخير المغرب وأنه مكروه (بدائع الصنائع ۱/۳۱٦)

[٦] قوله (وخوف فوت صلاة جنازة) أي يجوز التيمم لخوف فوت صلاة الجنازة (البحر الرائق ۱/٦۵)

[۷] ) من عجز ( مبتدأ خبره تيمم ) عن استعمال الماء ( المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف ) لبعده … ميلا … أو لمرض … أو برد … أو خوف عدو … أو عطش … أو عدم آلة … تيمم ( قال الشامي : قوله ) تفوت إلى خلف ( كالصلوات الخمس فإن خلفها قضاؤها وكالجمعة فإن خلفها الظهر واحترز به عما لا يفوت إلى خلف كصلاة الجنازة والعيد والكسوف والسنن والرواتب فلا يشترط لها العجز كما سيأتي  قوله (لبعده) … لأنه عند عدمه لا يتيمم وإن خاف خروج الوقت في صلاة لها خلف (رد المحتار ۱/۲۳۲-۲۳٦)

[۸] مصنف ابن أبي شيبة، الرقم: ۱۱۵۸٦

[۹] ( ويسلم ) بلا دعاء ( بعد الرابعة ) تسليمتين ناويا الميت مع القوم ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم وفي جواهر الفتاوى يجهر بواحدة قال الشامي : قوله ( لكن في البدائع الخ ) قد يقال إن الزيلعي لم يرد دخول التسليم في الكلية المذكورة والذي في البدائع ولا يجهر بما يقرأ عقب كل تكبيرة لأنه ذكر والسنة فيه المخافتة وهل يرفع صوته بالتسليم لم يتعرض له في ظاهر الرواية وذكر الحسن بن زياد أنه لا يرفع لأنه للإعلام ولا حاجة له لأن التسليم مشروع عقب التكبير بلا فصل ولكن العمل في زماننا على خلافه اهـ (رد المحتار۲/۲۱۳)

[۱٠] وأفضل صفوفها آخرها إظهارا للتواضع قال الشامي : قوله ( وأفضل صفوفها آخرها الخ ) كذا في القنية وبحث فيه في الحلية بإطلاق ما في صحيح مسلم عنه خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وبأن إظهار التواضع لا يتوقف على التأخر اهـ أقول قد يقال إن الحديث مخصوص بالصلاة المطلقة لأنها المتبادرة ولقوله من صلى عليه ثلاثة صفوف غفر له رواه أبو داود وقال حديث حسن والحاكم وقال صحيح على شرط مسلم ولهذا قال في المحيط ويستحب أن يصف ثلاثة صفوف حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة ويقف وراءه ثلاثة ثم اثنان ثم واحدا اهـ فلو كان الصف الأول أفضل في الجنازة أيضا لكان الأفضل جعلهم صفا واحدا ولكره قيام الواحد وحده كما كره في غيرها هذا ما ظهر لي (رد المحتار ۲/۲۱٤) انظر أيضا فتاوى محمودية (۱۳/۲٠٤)

[۱۱] جامع الترمذي، الرقم: ۱٠۲۸

[۱۲] وتفسد صلاة الجنازة بما تفسد به سائر الصلوات إلا محاذاة المرأة كذا في الزاهدي (الفتاوى الهندية ۱/۱٦٤)

[۱۳] فلا تنقض القهقهة في صلاة الجنازة وسجدة التلاوة لكن يبطلان (البحر الرائق ۱/٤۳)

[۱٤] ( فلو كبر الإمام خمسا لم يتبع ) لأنه منسوخ ولا متابعة فيه ولم يبين ماذا يصنع وعن أبي حنيفة روايتان في رواية يسلم للحال ولا ينتظر تحقيقا للمخالفة وفي رواية يمكث حتى يسلم معه إذا سلم ليكون متابعا فيما تجب فيه المتابعة وبه يفتي كذا في الواقعات ورجحه في فتح القدير بأن البقاء في حرمة الصلاة بعد فراغها ليس بخطأ مطلقا إنما الخطأ في المتابعة في الخامسة وفي بعض المواضع إنما لا يتابعه في الزوائد على الأربعة إذا سمع من الإمام أما إذا لم يسمع إلا من المبلغ فيتابعه وهذا حسن وهو قياس ما ذكروه في تكبيرات العيدين اهـ (البحر الرائق ۲/۱۹۸)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …