مسلمان عورت کی عدمِ موجودگی میں مسلمان عورت کو غسل دینے کے احکام

اگر کسی کی بیوی کا انتقال ہو جائے اور اس کو غسل دینے والی کوئی مسلم عورت موجود نہ ہو، پھر بھی شوہر کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کو غسل دے یا اس کے بدن کو ننگے ہاتھ مسّ کرے (چھوئے )، [2]

اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے نیچے اس کی تفصیل ہے۔

(۱) اگر غیر مسلم عورت موجود ہو ، تو ا س کو غسل کا طریقہ سکھا  دیا جائے ، تا کہ وہ غسل دے دے ۔

(۲) اگر کوئی  عورت  موجود نہ ہو ، تو اس (مرحومہ ) کا  محرم  اس کو  تیمم کرا دے ۔

(۳) اگر محرم  بھی موجود نہ ہو ، تو اس کا شوہر  اس کو تیمم کرا دے ۔

 (۴) اگر شوہر بھی موجود نہ ہو، تو کوئی بھی شخص تیمم کرا سکتا ہے۔

نوٹ:- مگر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر تیمم کرانے والا کوئی محرم ہو، تو اس کے لیے دستانہ پہننا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر شوہر یا کوئی اور تیمم کرائے، تو ان کے لیے دستانہ پہننا ضروری ہے۔ ان کے لیے مرحومہ کے بدن کو ننگے ہاتھ چھونا  درست نہیں ہے۔ [3]

غسل کے سلسلہ میں شوہر اور بیوی کے درمیان احکام میں فرق کی وجہ

مندرجہ بالا مسائل میں ہم نے دیکھا کہ اگر شوہر کا انتقال ہو جائے، تو بیوی کے لیے شوہر کو غسل دینے کی اجازت ہے؛ لیکن اگر بیوی کا انتقال ہو جائے، تو شوہر اس کو غسل نہیں دے سکتا ہے۔ دونوں میں فرق کیوں ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بیوی کے انتقال کی صورت میں نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے۔ لہذا شوہر اپنی متوفی زوجہ کے لیے بعض احکام میں اجنبی بن جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی متوفی زوجہ کو غسل نہیں دے سکتا ہے۔ تاہم وہ اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس شوہر کے انتقال کی صورت میں نکاح عدّت کے گذرنے تک باقی رہتا ہے اور اسی وجہ سے بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔

 

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1662


[۱] (ويمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها علي الأصح) منية … ( وهي لا تمنع من ذلك ) ولو ذمية بشرط بقاء الزوجية قال الشامي : قوله ( لا من النظر إليها على الأصح ) عزاه في المنح إلى القنية ونقل عن الخانية أنه إذا كان للمرأة محرم يممها بيده وأما الأجنبي فبخرقة على يده ويغض بصره عن ذراعها وكذا الرجل في امرأته إلا في غض البصر اهـ ولعل وجهه أن النظر أخف من المس فجاز لشبهة الاختلاف والله أعلم (رد المحتار ۲/۱۹۸) قال الشامي : وفي البدائع المرأة تغسل زوجها لأن إباحة الغسل مستفادة بالنكاح فتبقى ما بقي النكاح والنكاح بعد الموت باق إلى أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت فلا يغسلها لانتهاء ملك النكاح لعدم المحل فصار أجنبيا وهذا إذا لم تثبت البينونة بينهما في حال حياة الزوج فإن ثبتت بأن طلقها بائنا أو ثلاثا ثم مات لا تغسله لارتفاع الملك بالإبانة الخ (رد المحتار ۲/۱۹۹)

وإن لم يكن هناك نساء مسلمات ومعهم امرأة كافرة علموها الغسل ويخلون بينهما حتى تغسلها وتكفنها، ثم يصلي عليها الرجال ويدفنوها لما ذكرنا (بدائع ۱/۳٠٦)

[۲] ماتت بين رجال أو هو بين نساء يممه المحرم فإن لم يكن فالأجنبي بخرقة قال الشامي : قوله ( يممه المحرم الخ ) أي يمم الميت الأعم من الذكر والأنثى. قال الشامي: وكذا قوله فالأجنبي أي فالشخص الأجنبي الصادق بذلك وأفاد أن المحرم لا يحتاج إلى خرقة لأنه يجوز له مس أعضاء التيمم بخلاف الأجنبي إلا إذا كان الميت أمة لأنها كالرجل ثم اعلم أن هذا لم يكن مع النساء رجل لا مسلم ولا كافر ولا صبية صغيرة فلو معهن كافر علمنه الغسل لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف وإن لم يوافق في الدين ولومعهن صبية لم تبلغ حد الشهوة وأطاقت غسله علمنها غسله لأن حكم العورة غير ثابت في حقها وكذا في المرأة تموت بين رجال معهم امرأة كافرة أو صبي غير مشتهى كما بسطه في البدائع (رد المحتار ۲/۲٠۱)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …