میّت کی تکفین

میّت (مرد) کا کفن بچھانے اور پہنانے کا طریقہ

(۱) مرد کے کفن میں تین کپڑے مسنون ہیں : قمیص(کرتا)،  ازار اور لفافہ(چادر). [۱]

(۲) ازار سر سے لے کر پاؤں تک ہونا چاہیئے ۔ لفافہ ازار سے تھوڑا لمبا ہو اور قمیص(کرتا ) گردن سے پاؤں تک ہونا چاہیئے ۔[۲]

(۳) قمیص کرتے کی طرح پہنایا جاتا ہے بخلاف ازار اور لفافہ کے جو لپیٹا جاتا ہے اس لیے قمیص تیار کرنے کا طریقہ معلوم ہونا چاہیئے ۔ قمیص تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس کپڑے کو قمیص بنانا ہو ، اس کو دوہرا کر دیا جائے (دو تہیں بنائی جائیں )۔ ہر تہہ کی لمبائی میّت کے کندھے سے پاؤں تک کی لمبائی کے برابرہو اور جہاں سے کپڑے کو دوہرا کیا گیا ہے ، اس جگہ تھوڑا سا کاٹ دیا جائے؛ تاکہ جب میّت کو قمیص پہنایا جائے ، تو اس کے سر کو اسی کٹے ہوئے حصّہ سے داخل کیا جائے ۔ قمیص پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے آدھے حصّہ سے میّت کے بدن کےاگلے حصّہ کو (گردن سے پاؤں تک) ڈھانپا جائے اور دوسرے حصّہ سے میّت کے بدن کے پچھلے حصّہ کو (پاؤں تک ) ڈھانپا جائے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ میّت کے قمیص میں آستین ، کلی اور جیب نہیں ہونا چاہیئے ۔[۳]

(۴) اگر مرد کے لیے تین کپڑے دستیاب نہ ہوں مجبوری یا تنگ دستی کی وجہ حاصل نہ ہو تو دو کپڑوں (ازار اور لفافہ) پر اکتفا کرنا جائز ہے ۔ [۴]

(۵) میّت کی دو کپڑوں میں تکفین ، ایک کپڑے میں تکفین سے بہتر ہے؛ لیکن مجبوری یا تنگ دستی کی وجہ سے ایک کپڑے میں بھی تکفین جائز ہے۔[۵]

نوٹ: اگر ممکن ہو تو کفن پہنانے سے پہلے کفن کو  طاق عدد کا لحاظ کرتے ہوئے (ایک، تین یا پانچ بار) کسی خوشبودار چیز کی دھونی دے دی جائے۔[۶] 

مرد کا کفن کیسے بچھایا جائے؟

(۱) لفافہ (چادر ) پھیلا دیا جائے۔

(۲) لفافہ کے اوپر ازار رکھ دیا جائے۔

(۳) ازار کے اوپر قمیص رکھ دیا جائے۔[۷]

مرد کو کفن کیسے پہنایا جائے؟

(۱) میّت کو لٹا کر قمیص پہنادیا جائے۔

(۲) میّت کو ازار میں لپیٹ دیا جائے۔

(۳) پھر لفافہ (چادر) کو لپیٹ دیا جائے۔

میّت کو کفن پہنانے کے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ازار اور لفافہ کے بائیں حصّہ کو دائیں حصّہ سے پہلے رکھا جائے ؛ تا کہ لپیٹنے کے بعد دایاں حصّہ اوپر اور بایاں حصّہ نیچے رہے ۔[۸] کفن پہنانے کے بعد کفن کو سر اور پاؤں کے پاس کسی چیز (کپڑے کی رسّی) سے باندھ دیا جائے ؛ تا کہ کفن نہ کھلے ۔ایک دوسری رسّی پیٹ کے پاس بھی باندھ دیا جائے ؛ تاکہ میّت کو اٹھانے کے وقت کفن ڈھیلا نہ ہو جائے ۔ [۹]

 

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1374


 

[۱] ( ويسن في الكفن له إزار وقميص ولفاقة وتكره العمامة ) للميت ( في الأصح ) (الدر المختار ١/٢٠٢)

[۲] قال الشامي : قوله ( إزار الخ ) هو من القرن إلى القدم والقميص من أصل العنق إلى القدمين بلا دخريص وكمين واللفافة تزيد على ما فوق القرن والقدم ليلف فيها الميت وتربط من الأعلى والأسفل إمداد والدخريص : الشق الذي يفعل في قميص الحي ليتسع للمشي (رد المحتار ٢/٢٠٢)

[۳] قال الشامي : قوله ( إزار الخ ) هو من القرن إلى القدم والقميص من أصل العنق إلى القدمين بلا دخريص وكمين واللفافة تزيد على ما فوق القرن والقدم ليلف فيها الميت وتربط من الأعلى والأسفل إمداد والدخريص : الشق الذي يفعل في قميص الحي ليتسع للمشي (رد المحتار ٢/٢٠٢)

[٤] ( وكفاية له إزار ولفافة ) في الأصح ( ولها ثوبان وخمار ) ويكره أقل من ذلك قال الشامي :قوله ( في الأصح ) وقيل قميص ولفافة زيلعي قال في البحر وينبغي عدم التخصيص بالإزار واللفافة لأن كفن الكفاية معتبر بأدنى ما يلبسه الرجل في حياته من غير كراهة كما علل به في البدائع اهـ (رد المحتار ٢/٢٠٣)

[۵] ( وكفن الضرورة لهما ما يوجد ) وأقله ما يعم البدن قال الشامي : قوله ( وأقله ما يعم البدن ) ظاهره أنه لو لم يوجد له ذلك سألوا الناس له ثوبا يعمه وأن ما دون ذلك بمنزلة العدم وإنه لا يسقط به الفرض عن المكلفين وإن كان ساترا للعورة ما لم يعم البدن لكن لا يخفى أن كفن الضرورة ما لا يصار إليه إلا عند العجز فلا يناسب تقييده بشيء ولذا عبر المصنف بما يوجد نعم ما يعم البدن هو كفن الفرض كما صرح به في شرح المنية فيسقط به الفرض عن المكلفين لا بقيد كونه عند الضرورة لأنها تقدر بقدرها ولذا لما استشهد مصعب بن عمير رضي الله عنه يوم أحد ولم يكن عنده إلا نمرة أي كساء مخطط فكان إذا غطى بها رأسه بدت رجلاه وبالعكس أمر النبي بتغطية رأسه بها ورجليه بالإذخر إلا أن يقال إن ما لا يستر البدن لا يكفي عند الضرورة أيضا بل يجب ستر باقيه بنحو حشيش كالإذخر ولذا قال الزيلعي بعد سوقه حديث مصعب وهذا دليل على أن ستر العورة وحدها لا يكفي خلافا للشافعي اهـ تأمل (رد المحتار ٢/٢٠٤)

[٦] وتجمر الأكفان قبل أن يدرج الميت فيها وترا واحدة أو ثلاثا أو خمسا ولا يزاد على ذلك كذا في العيني شرح الكنز (الفتاوى الهندية ١/١٦١)

[۷] وكيفيته أن تبسط اللفافة أولا ثم الإزار فوقها ويوضع الميت عليهما مقمصا ثم يعطف عليه الإزار وحده من قبل اليسار ثم من قبل اليمين ليكون الأيمن فوق الأيسر ثم اللفافة كذلك (البحر الرائق ٢/١٩٠)

[۸] وكيفيته أن تبسط اللفافة أولا ثم الإزار فوقها ويوضع الميت عليهما مقمصا ثم يعطف عليه الإزار وحده من قبل اليسار ثم من قبل اليمين ليكون الأيمن فوق الأيسر ثم اللفافة كذلك (البحر الرائق ٢/١٩٠)

[۹] ( وعقد ) الكفن ( إن خيف انتشاره ) صيانة للميت عن الكشف (مراقى الفلاح مع حاشية الطحطاوى ص٥٧٨).

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …