باغِ محبّت (اکتیسویں قسط)

مسلمانوں کی دینی ترقّی اور اصلاح کی فکر- ایک عظیم سنّت

حضرت اقدس شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ایک بلند پایہ مشہور عالم دین اور جلیل القدر محدّث تھے۔ آپ شہر”دہلی“ میں رہتے تھے۔

 اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے خاندان کو دین کی خدمت کے لئے منتخب کر لیا تھا۔ آپ کے چار صاحبزادے تھے۔ وہ سب اپنے زمانے کے نامور علماء اور مشہور اولیاء تھے۔

ان میں سے ایک حضرت مولانا شاہ عبد القادر رحمہ اللہ تھے۔ انہوں نے ”موضح القرآن“ کے نام سے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی۔

قرآن شریف کے تمام تراجم کے مقابلے میں موضح القرآن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ ترجمہ چالیس سال کے طویل عرصے میں اکبر آبادی مسجد میں دوران اعتکاف لکھا گیا تھا۔

حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کی پاکیزہ زندگی، خلوص وللہّٰیت، ورع وتقویٰ، جلالت شان اور کمال علم وعمل کے متعلق بہت سے واقعات منقول ہیں۔

ذیل میں ان کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دل میں مسلمانوں کی اصلاح کی کتنی زیادہ فکر رہتی تھی اور ان کا اندازِ اصلاح کتنا نرالا تھا۔

ایک مرتبہ حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ وعظ فرما رہے تھے۔ دوران وعظ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے؛ لیکن حضرت نے فوراً اس کی اصلاح نہیں کی؛ تاکہ اس کو شرمندگی نہ ہو۔

 دوسری طرف حضرت کو اس کی اصلاح کی بھی فکر لاحق ہوئی، چنانچہ آپ نے اس کی اصلاح کے لئے مناسب موقع کا انتظار کیا۔

وعظ کے بعد اس سے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیے، مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔

جب حاضرین مجلس چلے گئے، تو آپ نے اس شخص سے انتہائی نرمی اور شفقت سے کہا کہ بھائی! میرے اندر ایک عیب ہے کہ میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا ہے اور حدیث شریف میں اس کے متعلق بڑی سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔

پھر آپ نے کچھ حدیثیں بیان کیں، اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے فرمایا کہ برائے مہربانی! میرا پائجامہ غور سے دیکھ کر بتاؤ کہ کیا واقعی ٹخنوں سے نیچے ہے یا یہ محض وہم ہے۔

یہ سن کر اس شخص کو فوراً احساس ہو گیا کہ حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کے اندر اس قسم کا کوئی عیب نہیں ہے؛ بلکہ یہ عیب میرے اندر ہے کہ میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے رہتا ہے۔

پھر وہ حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور کہا: آج میں آپ کے سامنے اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور ان شاء اللہ آئندہ کبھی بھی اس گناہ کا ارتکاب نہیں کروں گا۔

اس واقعہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ ہمارے اکابر اور بزرگانِ دین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنّتوں کا عملی نمونہ تھے۔ انہیں جس طرح اپنی اصلاح اور دینی ترقی کی فکر دامن گیر رہتی ہے، اسی طرح وہ دیگر مسلمانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے فکر مند رہتے تھے۔

چنانچہ جب وہ کسی شخص کو دیکھتے تھے کہ وہ کسی گناہ میں مبتلا ہے، تو وہ بے چین اور بے کل ہو جاتے تھے اور اس کو راہِ راست پر لانے کی پوری  کوشش کرتے تھے، چوں کہ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ تھا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …