باغِ محبّت (اٹھائیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اولاد کی اچھی  تربیت کے لئے نیک صحبت کی ضرورت

اولاد کی اچھی تربیت کے لئے والدین پر ضروری ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ ان کی اولاد نیک لوگوں کی صحبت اور اچھے ماحول میں رہے؛ کیونکہ نیک صحبت اور اچھے ماحول کا اثر جب ان کے دلوں پر پڑےگا، تو وہ ان کی مزاج کو اسلامی مزاج بنانے میں کارگر ہوگا، پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اولاد ایک اسلامی سوچ اور فکر کے ساتھ زندگی گزارےگی اور ان میں اسلام کی اچھی صفات پیدا ہوگی اور وہ اسلامی کردار اور اخلاق کے ساتھ متّصف ہوں گے۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر بچہّ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر اسلام کی حقانیت کودیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے؛ لیکن برے ماحول میں رہنے کی وجہ سے بچہ کسی باطل دین کی طرف مائل ہو جاتا ہے، لہذا وہ بچہ جو یہودی، نصرانی یا مجوسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے والدین کے دین کو اختیار کر لیتا ہے اور اس پر چلتا ہے۔ (صحيح البخاري)

ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نیک ہم نشین (نیک ساتھی) کی مثال مشک اٹھانے والے کے ساتھ کی اور برے ہم نشین (برے ساتھی) کی مثال بھٹی دھونکنے والے کے ساتھ کی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سمجھایا کہ اگر آپ مشک اٹھانے والے کی صحبت میں رہیں، تو اگر وہ تجھے مشک نہ بھی دے، تو کم از کم تجھے اس کی خوشبو سے فائدہ پہونچےگا اور اگر آپ آگ کی بھٹی دھونکنے والے کی صحبت میں رہیں، تو اگر تیرے کپڑے کو آگ نہ لگے تب بھی اس کی آگ کے دھواں اور بدبو سے تجھے نقصان پہنچےگا۔ (صحیح بخاری، ابو داؤد)

اس حدیث شریف سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ نیک صحبت فائدے سے خالی نہیں ہوتی ہے اور بری صحبت نقصان سے خالی نہیں ہوتی ہے۔

اگر ہم صحابۂ کرام رضی الله عنہم کی زندگی پر نظر ڈالیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے اس بات کو اچھی طرح سمجھا کہ انسان اچھی صحبت اور بری صحبت سے متأثر ہوتا ہے؛ لہذا بہت سے واقعات ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی الله عنہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لئے فکر مند تھے؛ لہذا انہوں نے اپنی اولاد کو نیک لوگوں کی صحبت میں رکھا۔

حضرت ام سلیم رضی الله عنہا کی فکر اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کے لئے

ہجرت کے موقع پر جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اس وقت حضرت انس رضی الله عنہ کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آنے کے بعد حضرت انس رضی الله عنہ کی والدہ حضرت ام سلیم رضی الله عنہا نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا۔

جب وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو حضرت انس رضی الله عنہ کی والدہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا کہ اے الله کے رسول ! انصار میں سے ہر آدمی اور ہر عورت نے آپ کی خدمت میں بطورِ تحفہ کچھ نہ کچھ پیش کیا ہے، مگر میرے پاس اس بیٹے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جس کو میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں؛ لہذا آپ میرے اس بیٹے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیں۔ (مجمع الزوائد)

چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیا۔ پھر حضرت انس رضی الله عنہ دس سالوں تک نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت ام سلیم رضی الله عنہا نیک صحبت کی اہمیّت اور اس کے فوائد سے اچھی طرح واقف تھیں۔ اس لئے وہ چاہتی تھی کہ ان کا بیٹا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفید ہوتے رہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت سے بڑھ کر کوئی صحبت نہیں ہے۔

حضرت عباس رضی الله عنہ کی فکر اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کے لئے

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی الله عنہ کے دل میں رغبت پیدا ہوئی کہ وہ اپنے بیٹے حضرت عبد الله رضی الله عنہ کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں لے جائے؛ تاکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہو سکے۔

چنانچہ انہوں نے اپنے بارہ یا تیرہ سال کے بیٹے حضرت عبد الله کو حکم دیا کہ وہ اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی الله عنہا کے مکان میں رات گزارے؛ تاکہ وہ رات میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی نماز کا مشاہدہ کرے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہو، چنانچہ حضرت عبد الله رضی الله عنہ نے اپنی خالہ کے گھر میں رات گزاری اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی نماز کا مشاہدہ کیا اور پھر انہوں نے اس علوم کو امّت تک پہونچایا اور امت کو بتایا کہ کس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔

عام طور پر جب ہم ”صحبت“ کا ذکر کرتے ہیں، تو ہمارے ذہنوں میں ”دوستوں اور ساتھیوں کی صحبت“ کا خیال آتا ہے، جب کہ صحبت سے صرف یہ مراد نہیں ہے؛ بلکہ صحبت سے مراد ہر وہ چیز جس کا انسان کی سوچ وخیالات اور اس کے اخلاق وعادات پر اثر پڑتا ہے۔ وہ ساری چیزیں اس کے لئے ”صحبت“ ہیں۔

چنانچہ کتابیں، انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس یہ سب چیزیں انسان کے لئے صحبت ہوتی ہیں اور ان سب چیزوں کا انسان کے دل ودماغ اور افکار ونظریات پر غلط اثر پڑتا ہے؛ لہذا والدین کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں بھی اپنی اولاد کی نگرانی کریں، جس طرح ان پر لازم ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ کس طرح کے لوگوں کے ساتھ ان کی اولاد ملتی ہے، تعلق جوڑتی ہے اور دوستی رکھتی ہے۔

الله تعالی ہمیں نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17946


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …