امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – تیسری قسط

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دینے پر سخت وعید

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھے کام کا حکم دینا اور برے کام سے روکنا) کا فریضہ دین اسلام میں انتہائی اہم درجہ رکھتا ہے۔

اس ذمہ داری کو اتنی اہمیت دینے کی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کا دین پر مضبوطی سے قائم رہنا اور اسلام کا ڈھانچہ برقرار رہنا اس عظیم فریضہ پر موقوف ہے۔

امت مسلمہ میں جب کوئی برائی اور خرابی پیدا ہو جائے اور اس برائی اور خرابی کی اصلاح نہ کی جائے، تو وقت گزرنے سے یہ برائی اور خرابی آہستہ آہستہ قرار پکڑ لےگی اور بالآخر وہ امت مسلمہ کو تباہ کرےگی۔

اسی طرح اگر بدعات وخرافات کی اصلاح نہ کی جائے، تو لوگ ان کو دین کا جزو سمجھنے لگیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد اسلام کی پوری شکل بگڑ جائےگی اور اس کا انجام یہ ہوگا کہ اسلام بھی دیگر گذشتہ امتوں کے مذاہب کی طرح ہو جائےگا جن کو لوگوں نے آہستہ آہستہ تحریف کی ہیں؛ یہاں تک کہ ان کے دین کا بہت کم حصہ باقی رہ گیا۔

نہی عن المنکر چھوڑنے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر لعنت

قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر لعنت کے دو بنیادی وجوہ بیان کئے ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کافروں کو اپنا دوست بنایا۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُونَ ﴿‎۷۹﴾‏ تَرٰى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوْا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَفِى الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ﴿۸۰﴾ (سورة المائدة: ٧۹ – ٨٠)

تم دیکھتے ہو ان میں کہ بہت سے لوگ دوستی کرتے ہیں کافروں سے، کیا ہی برا سامان انہوں نے اپنے واسطے آگے بھیجا، وہ اس لئے کہ الله کا غضب ان پر ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔

اس آیت کریمہ سے امت مسلمہ کو یہ سبق ملتا ہے کہ اگر امت مسلمہ ان دونوں برائیوں میں بنی اسرائیل کی پیروی کریں گی، تو وہ بھی ان کی تباہی کے اسی راستہ پر چلیں گی۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی کرنا امت مسلمہ میں تنزلی کا باعث

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا چھوڑ دوگے؟

صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! کیا ایسا زمانہ آئےگا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی زیادہ سخت زمانہ آئےگا (پھر آپ نے فرمایا) اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تم برائی کو نیکی اور نیکی کو برائی سمجھنے لگوگے؟۔ (مجمع الزوائد)

جب اس فریضہ کے چھوڑنے کا نتیجہ اس قدر شدید ہو کہ یہ دین کی تباہی کا باعث ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں اس کی سزا بھی اتنی سخت ہوگی۔

جاننا چاہیئے کہ آخرت کے عذاب کے علاوہ امّت مسلمہ کو اس اہم فریضہ کے چھوڑنے کی وجہ سے دنیا میں بھی عذاب کا سامنا ہوگا اور اس کی وجہ سے وہ بہت سی نعمتوں سے محروم ہوگی۔

ذیل میں کچھ حدیثیں تحریر کی جا رہی ہیں جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں غفلت برتنے کا بدترین انجام بیان کیا گیا ہے:

دعا کی عدم قبولیت

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے قسم کھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ الله جل جلالہ اپنا عذاب تم پر مسلط کر دیں گے پھر تم دعا بھی مانگو گے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ (ترمذی)

عام عذاب میں مبتلا ہونا

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب لوگ برائی کو دیکھیں اور اس کی تغییر اور اصلاح کے لئے کچھ نہ کریں، تو قریب ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے ان سب پر عام عذاب آجائے۔ (سنن ابن ماجہ)

دنیا ہی میں عذاب

حضرت جریر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی جماعت اور قوم میں کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور وہ جماعت وقوم باوجود قدرت کے اس شخص کو اس گناہ سے نہیں روکتی، تو ان پر مرنے سے پہلے دنیا ہی میں الله تعالیٰ کا عذاب مسلط ہو جاتا ہے۔ (ابو داؤد)

گنہگاروں میں شمار

حضرت عرس بن عمیرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی جگہ میں گناہ کیا جائے، تو جو شخص وہاں (بلا اختیار) موجود تھا اور وہ اس گناہ سے ناخوش تھا (ایک دوسری روایت میں وارد ہے کہ وہ اس گناہ کو غلط اور برا سمجھا)، تو وہ اس شخص جیسا ہوگا جو وہاں موجود نہیں تھا (یعنی وہ گنہگار نہیں ہوگا اس لئے کہ اس کی حاضری وہاں پر غیر اختیاری تھی) اور جو شخص اس کی جگہ میں موجود نہ تھا؛ مگر وہ اس گناہ سے راضی تھا (اور وہ وہاں حاضر ہونا چاہا)، تو وہ اس شخص جیسا ہوگا جو وہاں موجود تھا (یعنی وہ گنہگار ہوگا اس لئے کہ وہ اس گناہ سے خوش تھا اور وہ وہاں حاضر ہونا چاہا)۔ (ابو داؤد)

برے لوگوں کے ساتھ نیک لوگوں پر عذاب

حضرت زینب بن جحش رضی الله عنہا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: اے الله کے رسول ! کیا ہم نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عام عذاب میں ہلاک کر دیئے جائیں گے؟ (اگر لوگوں پر عام عذاب آوے) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جب فسق وفجور بڑھ جائےگا اور عام ہو جائےگا (تو اچھے اور برے تمام لوگوں پر عام عذاب نازل ہوگا؛ لیکن نیک لوگوں کا حشر برے لوگوں سے الگ ہوگا)۔ (بخاری شریف)

الله تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے محفوظ فرمائے اور ان کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18882


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …