صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا اظہار ‏

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے جنت کا اعلان فرمایا:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿۱۰۰﴾

اور جو مہاجرین وانصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (سورۂ توبہ،آیت نمبر ۱۰۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کے دلوں میں کتنی زیادہ محبّت وعظمت تھی۔ اس کا اندازہ اس وقت کے کافروں کے مشاہدہ اور گواہی سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان معاہدہ ہو رہا تھا، تو قریش کے قاصد حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو بعد میں مسلمان ہوئے) کو یہ موقع ملا کہ وہ خود مشاہدہ کرے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس طرح برتاؤ کریں، چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کی محبت اور تعظیم وتکریم کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔ پھر مکہ مکرمہ واپس آئے اور قریش کو مخاطب کر کے یہ کہا:

”اے قریش ! میں بڑے بڑے بادشاہوں کے یہاں گیا ہوں، قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے درباروں کو بھی دیکھا ہے اور ان کے آداب بھی دیکھے ہیں۔ خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کی جماعت اس کی ایسی تعظیم کرتی ہو جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ان کی تعظیم کرتی ہے۔

”اگر وہ تھوکتے ہیں تو جس کے ہاتھ پڑ جائے وہ اس کو بدن اور منھ پر مل لیتا ہے جو بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ سے نکلتی ہے اس کے پورا کرنے کو سب کے سب ٹوٹ پڑتے ہیں۔

”ان کی وضو کا پانی آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم کرتے ہیں۔ زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ اگر کسی کو قطرہ نہ ملے تو وہ دوسرے کے تَر ہاتھ کو ہاتھ سے مل کر اپنے منھ پر مل لیتا ہے۔

”ان کے سامنے بولتے ہیں تو بہت نیچی آواز سے۔ ان کے سامنے زورسے نہیں بولتے۔ ان کی طرف نگاہ اٹھا کر ادب کی وجہ سے نہیں دیکھتے۔ اگر ان کے سر یا داڑھی کا کوئی بال گرتا ہے، تو اس کو تبرّکاً اٹھا لیتے ہیں اور اس کی تعظیم اور احترام کرتے ہیں۔

”غرض میں نے کسی جماعت کو اپنے آقا کے ساتھ اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ان کے ساتھ کرتی ہے۔“ (صحیح البخاری، الرقم: ۲۷۳۱، فضائل اعمال، ص۱۶۶)

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبّت سے منوّر کر دے اور ہمیں زندگی کے تمام امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Check Also

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کی قبولیت‎ ‎

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے دعا …