اتباع سنت کا اہتمام – ۳

مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی سنّت کا اہتمام

محدث جلیل، فقیہ العصر حضرت مولانا خلیل احمد قدس سرہ اپنے زمانے کے بہت بڑے ولی تھے۔ وہ بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ الله اور محدث جلیل حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی رحمہ الله کے شیخ تھے (جو مشہور کتاب فضائل اعمال اور فضائل صدقات کے مصنف تھے)۔

حضرت مولانا مفتی عاشق الہٰی صاحب میرٹھی رحمہ الله حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله کا مندرجہ ذیل واقعہ تحریر فرماتے ہیں۔ اس واقعہ سے اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے۔

مفتی عاشق الہٰی صاحب رحمہ الله لکھتے ہیں:

نماز تو آپ (مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله) کی ہر جگہ آپ کی قرّۃ العین (آنکھوں کی ٹھنڈک) تھی پھر کیا پوچھنا نماز مسجد الحرام کا کہ آپ کے صدہا رفیقوں میں کوئی ایک بھی نہیں بتا سکتا کہ فلاں نماز میں آپ کی تکبیر تحریمہ یا صف اوّل یا امام کی جانبِ یمین آپ سے فوت ہوئی ہو۔

سخت گرمی میں جبکہ فرش صحن پر پاؤں رکھنے سے چھالے پڑتے تھے آپ ظہر میں انگلیوں کے بل تیز چل کر مصلّے حنفی پر پہنچتے اور صف اول میں امام کا قرب لیا کرتے تھے۔

مجھے خوب یاد ہے ایک مرتبہ بعد مغرب بارش خوب زور کی ہوئی اور رفقاء کی زبانوں پر آیا کہ ”الا صلوا فی الرحال“ (گھر میں نماز پڑھو یعنی بارش کی وجہ سے) پر عمل کا وقت حق تعالیٰ نے دکھایا، مگر حضرت نے اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی مجھ سے فرمایا چلو بھئی نماز کو۔

ہر چند کہ میری ہمت بھی پست تھی مگر لالٹین ہاتھ میں لیکر ساتھ ہو لیا اور حضرت نے پانی بھرا ہوا لوٹا ہاتھ میں اٹھا لیا۔ میں بالکل نہ سمجھا کہ باوضو ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت ہے؛ مگر حضرت نے فرمایا ممکن ہے پاؤں کو کیچڑ لگے اس لئے (مسجد کے) دروازے پر پاؤں دھو لیں گے کہ حرم شریف ملطَّخ (آلودہ) نہ ہو۔

اس سے قبل مجھے مکہ کی کیچڑ اور بارش کا منظر دیکھنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ نیچے اُتر کر سڑک پر آئے، تو زمین پاؤں کو پکڑے لیتی تھی۔ ہر قدم پر میری تمنا ہوتی تھی کہ کاش حضرت رخصت پر عمل فرما دیں اور سمجھتا تھا کہ حضرت بھی اس تکلیف کو برداشت نہ کر سکیں گے؛ مگر ہر قدم حضرت کا مجھ سے آگے رہا۔

ہر ایک کے سر پر چھتری جدا تھی اور میرے ہاتھ میں لالٹین تو حضرت کے ہاتھ میں پانی کا بھرا ہوا لوٹا۔

بازار ختم ہوا تو سڑک پر تا دیوار مسجد الحرام پچیس تیس فٹ ہاتھ کا دریا بہہ رہا تھا اور اس زور سے پانی چل رہا تھا کہ دیکھ کر ڈر معلوم ہوتا تھا۔ یہاں حضرت ٹھہرے اور میں سمجھا کہ اب واپسی کا حکم فرمائیں گے۔

مگر حضرت بولے چھتریاں تو اب بند کر لو اور پائینچے چڑھا لو، جوتے بغل میں لے لو اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال لو کہ سنا ہے رَو میں پتھریاں آتی ہیں اور گر جانے کا ڈر رہتا ہے۔

وہ پیارا منظر بھی اب تک نظر کے سامنے ہے کہ برہنہ پاگھٹنوں تک پائینچے چڑھائے قینچی کی طرح باہم ہاتھ ملائے چھتریاں بازو پر لٹکائے چلے اور بسم الله مجرٖها“ کہہ کر رو میں قدم ڈال دیئے۔

چونکہ نشیب کا رخ تھا اس لئے چھوٹی بڑی کنکریاں پانی کے ساتھ بہتی ہوئی اس زور سے آتی تھیں جیسے مٹھیاں بھر کر کوئی گولیاں مارتا ہے۔ آگے بڑھے تو گھٹنوں تک پانی آ گیا اور قریب تھا کہ میرا پاؤں پھسلے؛ مگر حضرت نے بازو تھام رکھا تھا کہ گرنے نہ دیا اور خدا خدا کر کے باب الصفا پر چڑھے۔ وہاں پہنچ کر پہلی سیڑھی پر اول پاؤں دھوئے اور بوّاب کی الماری میں جوتے رکھے اس کے بعد ”بسم الله اللهم افتح لی ابواب رحمتک“ پڑھ کر حضرت نے مسجد میں قدم رکھا اور میں حضرت کا اتباع کرتا رہا۔ (تذکرۃ الخلیل، ص ۳۵۲-۳۵۳)

حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله کی نظر میں تکبیر اولیٰ کی اہمیّت

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ مندرجہ ذیل واقعہ بیان فرماتے ہیں:

میں حضرت کی خدمت میں چھ سال رہا ہوں مجھے یاد نہیں کہ حضرت کی تکبیر تحریمہ کبھی فوت ہوئی ہو۔ البتہ ایک دن صبح کو وضو کرتے ہوئے آپ کے دانتوں میں سے خون آنے لگا اور دیر تک اس کا سلسلہ چلتا رہا۔

تو مسجد میں خادم کو بھیجا کہ نماز میں میری وجہ سے دیر نہ کی جاوے میرے دانتوں سے خون جاری ہے جو بند نہیں ہوتا۔ اس روز بیشک عذر کی وجہ سے حضرت کی تکبیر تحریمہ فوت ہوئی، مگر رکعت اس روز بھی فوت نہیں ہوئی۔ (تذکرۃ الخلیل، ص ٣٤٥)

مندرجہ بالا دونوں واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ ہمارے اسلاف واکابر جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز کی ادائیگی کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ وہ تکلیفیں برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے؛ لیکن انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی فوت ہو جائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور پنج وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18270


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …