اتباع سنت کا اہتمام – ۲

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اور ان کی اتباع سنت کا اہتمام

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ عظیم عالم دین، محدّثِ جلیل، بہت بڑے فقیہ اور اپنے زمانے کے ولی کامل تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک پہونچتا تھا۔ یہ وہی صحابی ہیں جن کے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ کی ہجرت کے موقع پر قیام فرمایا تھا۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیتیں اور خوبیاں عطا کی تھیں۔ ان کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں کی بے پناہ محبّت تھی۔ اتباع سنّت کی اہمیّت اور ولولہ کا یہ حال تھا کہ وہ ایک ایک سنّت پر عمل کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ذیل میں تین واقعے نقل کئے جار ہے ہیں، جن سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اتباعِ سنّت کا مقام ان کے یہاں کیا تھا۔

پہلا واقعہ

۱۳۰۱ھ میں دارالعلوم دیوبند کا چوتھا تاریخی جلسۂ دستار بندی ہوا تھا جس میں قطب الارشاد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ ہی کے دستِ مبارک سے دستار بندی ہوئی۔

اس موقع پر ایک روز غالباً عصر کی نماز کے لیے آپ رحمہ اللہ تشریف لے گئے تو تکبیر کہی جا چکی تھی۔

چنانچہ سلام پھیرنے کے بعد آپ کو دیکھا گیا کہ سخت پریشانی کی حالت میں ہیں اور آپ رحمہ اللہ فرمارہے ہیں کہ افسوس ! بائیس برس کے بعد آج تکبیر اولی فوت ہوئی۔

اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے مسجد میں نماز باجماعت اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کو کتنی اہمیت دی ہے۔

دوسرا واقعہ

حضرت رحمہ اللہ کے یہاں ایک ایک سنت کا چونکہ بہت ہی زیادہ اہتمام تھا، اس لیے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ مسجد سے بایاں پاؤں نکالنا اور جوتا سیدھے پاؤں میں پہلے پہننا سنت ہے۔ تو دیکھیں حضرت رحمہ اللہ ان دونوں سنتوں کو کیسے جمع فرماتے ہیں۔

تو سب نے مل کر اس کا بہت خیال رکھا کہ حضرت رحمہ اللہ اس میں کیا عمل کرتے ہیں۔

تو جب حضرت رحمہ اللہ مسجد سے نکلنے لگے تو آپ نے پہلے بایاں پاؤں نکال کر کھڑاؤں پر رکھا۔ اور جب سیدھا پاؤں نکالا تو کھڑاؤں انگوٹھے میں ڈال لی۔ اس کے بعد بایاں پاؤں کو کھڑاؤں کے اندر ڈالا۔ سبحان اللہ ! کتنے اہتمام کے ساتھ حضرت رحمہ اللہ نے دونوں سنتوں کو جمع فرما دیا۔

تیسرا واقعہ

ایک مرتب صحنِ مسجد میں طلبہ کو درس دے رہے تھے کہ بارش ہونے لگی۔ طلبہ کتابیں اور تپائیاں لے کر اندر بھاگے۔ حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اپنی چادر بچھائی اور تمام طالب علموں کے جوتے اٹھا کر اس میں ڈال کر ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔

طلبہ نے جب یہ صورت دیکھی تو وہ پریشان ہوئے اور بعض رو دیئے کہ حضرت یہ کیا؟ فرمایا کہ حدیث میں آتا ہے کہ طلبہ کے لیے چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں دعا کرتی ہیں۔ اور فرشتے ان کے پاؤں کے نیچے پر بچھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت کر کے میں نے سعادت حاصل کی ہے۔ آپ مجھے اس سعادت سے محروم کیوں کرتے ہیں؟

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنّتوں کا مجسّم نمونہ تھے؛ لیکن ان کا زمانہ ہمارے زمانے سے بہت دور ہے۔ جب ہم ہمارے اکابر کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے اکابر سنتّوں کا زندہ نمونہ تھے۔ اس زمانہ میں انہوں نے ہمیں اپنے عمل سے سنتّوں پر عمل کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ہماری زندگی میں نبی کریم صلی االلہ علیہ وسلم کی تمام سنّتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18270


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …