حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت اپنی ذات سے بھی زیادہ‎ ‎

حدثني أبو عقيل زهرة بن معبد أنه سمع جده عبد الله بن هشام قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب فقال له عمر يا رسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا والذي نفسي بيده حتى أكون أحب إليك من نفسك فقال له عمر فإنه الآن والله لأنت أحب إلي من نفسي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الآن يا عمر (صحيح البخاري، الرقم: ٦٦۳۲)

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنی ذات کے علاوہ ہر چیز کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ محبّت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا) جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اب مجھے آپ سے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبّت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلی خوشی

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) سے کہا: مجھے اپنے والد کے اسلام قبول کرنے کے مقابلہ میں آپ کے اسلام قبول کرنے سے زیادہ خوشی ہوئی؛کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے اسلام لانے سے زیادہ خوشی ہوئی میرے والد کے اسلام لانے کے مقابلہ میں۔ (شرح معانی الآثار،۳/۳۲۱)

درود شریف کثرت سے پڑھنا

حضرت حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ

میں ایک مرتبہ اپنے گھر سے نکل رہا تھا کہ میری نگاہ ایک نوجوان پر پڑی، جو ہر قدم پر اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا : کیا تمہارے اس عمل کا کوئی ثبوت ہے (یا یہ کہ تم  یہ اپنی طرف سے پڑھ رہے ہو) ؟ اس نے سوال کیا : آپ کون ہیں؟ میں نے جواب دیا : سفیان ثوری۔ اس نے پوچھا : کیا آپ عراق کے سفیان ہیں؟ میں نے کہا : ہاں۔

 اس نے دریافت کیا: کیا آپ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، تو اس  نے پوچھا : آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ رات کو دن سے نکالتا ہے اور دن کو رات سے نکالتا ہے اور بچہ کو رحمِ مادر میں شکل و صورت عطا کرتا ہے۔ اس نے کہا : آپ نے اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل نہیں کی۔

 پھر میں نے سوال کیا : تو تم نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا ؟ اس نے جواب دیا : میں کسی کام کا پختہ ارادہ کرتا ہوں، مگر مجھ سے پورا نہیں ہوتا (یعنی میں کوئی چیز کرنا چاہتا ہوں، مگر قدرت ہونے کے باوجود اس کو پورا نہیں کر سکتا)۔ اس سے میں نے پہچانا کہ کوئی اور قدرت ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت)، جس کے ہاتھ  میں میرے ہر کام کی باگ دوڑ ہے۔

اس کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تم ہر قدم پر درود شریف کیوں پڑھ رہے ہو، تو اس نے کہا کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حج کے لیے جا رہا تھا ؛ لیکن میری والدہ راستے ہی میں انتقال کر گئیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا چہرہ کالا ہوگیا اور پیٹ پھول گیا۔ یہ دیکھ کر میں نے سمجھا کہ میری والدہ نے اپنی زندگی میں کسی سنگین گناہ کا ارتکاب کیا ہوگا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ ہو گیا۔

تو فوراً میں نے آسمان کی طرف دعا کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ؛ لیکن جوں ہی دُعا کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھایا، تو میں نے دیکھا کہ “تہامہ” (حجاز) کی طرف سے ایک بادل آ رہا ہے، جس سے ایک شخص نمودار ہوا، اس نے اپنا ہاتھ  میری والدہ کے چہرہ پر پھیرا، تو چہرہ روشن ہوگیا پھر اس نے ان کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، تو پیٹ کی سوجن ختم ہو گئی۔

میں نے اس شخص سے پوچھا : آپ کون ہیں؟  آپ نے میری والدہ کی اور میری بڑی مصیبت دور کر دی۔ انہوں نے جواب دیا : میں تمہارا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔

میں نے آپ سے درخواست کی کہ کچھ نصیحت کیجیے، تو آپ نے فرمایا : ہر قدم پر ” اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ “ پڑھا کرو۔ (در المنضود، ص ۲۴۶)

‎يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ‎

Source:

Check Also

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حصول ‏

”جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت ضروری ہو گئی“...