باغِ محبّت (تیئیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

والدین کے عظیم حقوق

الله سبحانہ وتعالیٰ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت والدین کی نعمت ہے۔ والدین کی نعمت اتنی عظیم الشان نعمت ہے کہ اس نعمت کا کوئی بدل نہیں ہے اور یہ نعمت ایسی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں ایک ہی دفعہ ملتی ہے، جس طرح انسان کو زندگی کی نعمت ایک ہی دفعہ ملتی ہے اور جب زندگی ختم ہو جاتی ہے، تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آتی ہے، اسی طرح والدین کی نعمت جب وہ چلی جاتی ہے تو وہ دوبارہ لوٹ کر نہیں آتی ہے۔

ہر نعمت جو انسان کو ملتی ہے اس کے کچھ حقوق ہوتے ہیں؛ لہذا جب والدین کی نعمت سب سے بڑی نعمتوں میں سے ہے، تو اس کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان حقوق کا پورا کرنا سب سے زیادہ اہم اور وضروری ہے۔

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں والدین کے حقوق کے بارے میں، والدین کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کرنے کا حکم آیا اور ان کے حقوق پورا کرنے کی بڑی تاکید آئی۔

قرآنِ کریم میں الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَقَضٰى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِالْوٰلِدَيْنِ إِحْسٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ‎﴿سورة الإسراء: ٢٣﴾

اور تمہارے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو؛ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔

حضرت عبد الله بن عمرو رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله کی رضامندی باپ کی رضامندی میں ہے اور الله کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی شریف)

حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: اے الله کے رسول ! والدین کا ان کے بچوں پر کیا حق ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: وہ دونوں تمہاری جنّت ہیں یا تمہاری جہنّم ہیں۔ (ابن ماجہ)

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے ساتھ رحم دل، محبّت اور ادب واحترام سے پیش آئے اور جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرے، تو ایسے آدمی کو جنّت حاصل ہوگی۔ اس کے برعکس اگر کوئی آدمی اپنے والدین کی اطاعت نہ کرے اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرے، تو والدین کی نافرمانی ایسے آدمی کے لئے جہنم میں جانے کا باعث ہوگا۔

جنّت کے دو کھلے ہوئے دروازے

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح گزارے اس حال میں کہ وہ اپنے ماں باپ کا فرماں بردار ہے، تو ہر صبح اس کے لئے جنّت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہوں، تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ اور جو شخص صبح گزارے اس حال میں کہ وہ اپنے ماں باپ کا نافرمان ہے، تو ہر صبح اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ایک زندہ ہوں، تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ (شعب الایمان)

امام بیہقی رحمہ الله نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما طواف کر رہے تھے۔ اثنائے طواف انہوں نے ایک یمنی شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی ماں کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے بیت الله کا طواف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: بے شک میں اپنی ماں کا سدھایا ہوا اونٹ ہوں۔ دوسری سواری ان کو ڈرا سکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز نہیں ڈراؤں گا (تکلیف نہیں دوں گا)۔ میں ان کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے چل رہا ہوں؛ لیکن وہ مدّت بہت لمبی تھی جس میں انہوں نے مجھے اپنے رحم میں رکھا۔

طواف سے فارغ ہو کر اس نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا: کیا اس طرح طواف کرنے سے میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا؟ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے جواب دیا: نہیں، تم نے تو (اس تکلیف کے) ایک حصّہ کا بھی حق ادا نہیں کیا جو اس نے تمہاری ولادت کے وقت برداشت کی۔ (شعب الایمان)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور ان کی خدمت جنّت کی طرف لے جانے والا راستہ ہے اور ان سے محبّت، ان کا اکرام واعزاز اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل انتہائی بڑی عبادت ہے جو دنیا اور آخرت میں اجرِ عظیم کا باعث ہے۔

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی فرماں بردار اولاد اپنے والدین کو شفقت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، الله تعالیٰ ان کے لئے ہر نگاہ کے بدلہ ایک مقبول حج کا ثواب لکھتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے سوال کیا: اگر چہ وہ ہر دن سو بار دیکھے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، الله تعالیٰ سب سے بڑے ہیں اور سب سے زیادہ دینے والے ہیں (ان کا بدلہ تمہارے تصوّر سے بھی زیادہ ہے)۔ (شعب الایمان)

حضرت حارثہ بن نعمان رضی الله عنہ کا اپنی والدہ کی خدمت

حضرت حارثہ بن نعمان رضی الله عنہ ایک جلیل القدر انصاری صحابی ہیں۔ انہیں غزوۂ بدر میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے تمام فضائل ومناقب میں ماں کی خدمت، ان کی تعظیم وتکریم اور ان سے بے مثال محبّت سب سے اوپر ہے۔ ان کی ماں کا نام حضرت جعدہ رضی الله عنہا تھا۔ انہیں اپنی ماں کی خدمت کا کتنا بڑا صلہ ملا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگائیے:

ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے اپنا خواب بیان کیا کہ میں جنّت میں داخل ہوا، تو میں نے ایک آدمی کی آواز سنی، وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ تو میں نے اہل جنّت سے پوچھا: یہ کون ہے جو قرآن کی تلاوت کر رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حارثہ بن نعمان۔

یہ خواب بیان کرنے کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے فرمایا کہ حضرت حارثہ بن نعمان کو یہ مقام ومرتبہ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے ملا ہے۔ حضرت حارثہ بن نعمان رضی الله عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی راحت کا اتنا زیادہ خیال رکھتے تھے کہ وہ ان کو اپنے ہاتھ سے کھلاتے تھے اور اگر ان کی والدہ ان سے کوئی بات کہتی تھی جو وہ نہیں سن پاتے تھے (والدہ کے بڑھاپے کی وجہ سے) تو وہ ان سے نہیں پوچھتے تھے (کہ آپ نے کیا کہا)؛ بلکہ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ دوسرے لوگوں سے (جو ان کی ماں کے پاس موجود ہوتے) پوچھتے تھے کہ میری ماں نے کیا کہا؟

اس طرح سے حضرت حارثہ بن نعمان رضی الله عنہ نے اپنی ماں کی خدمت کی، جس کی وجہ سے الله تعالیٰ نے انہیں یہ مقام عطا فرمایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی تلاوت جنّت میں سنی۔

والدین کو تکلیف نہ دینا

جب ہم والدین کی فرماں برداری کرتے ہیں اور ان کو خوش کرتے ہیں، تو ان کے دلوں سے ہمارے لئے دعائیں نکلتی ہیں اور ہماری دنیا اور آخرت سنور جاتی ہے اور اس کے برعکس اگر ہم ان کی نافرمانی کرتے ہیں، ان کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں اور انہیں تکلیف پہونچاتے ہیں، تو ہم گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور ہم خیر وبرکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

جو شخص اپنے والدین کو تکلیف پہونچاتا ہے، اس کو آخرت سے پہلے دنیا ہی میں سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی سزا ملےگی۔

حضرت ابو بکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله سبحانہ وتعالیٰ تمام گناہوں کو (جن کو وہ چاہیں) معاف فرما دیتے ہیں سوائے والدین کی نافرمانی کے۔ بے شک الله تعالیٰ ایسے شخص (والدین کے نافرمان) کو اس کی موت سے پہلے اس دنیا ہی میں سزا دیتے ہیں۔ (شعب الایمان)

لیکن یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اگر والدین شریعت کے خلاف کام کرنے کا حکم دے، تو اولاد کو چاہیئے کہ اس حکم کو پورا نہ کرے؛ کیونکہ الله تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری سب سے مقدّم ہے۔

الله تعالیٰ ہمیں والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17666


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …