سورۃ الفیل کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اَلَمۡ  تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ  بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾‏‎ ‎اَلَمۡ  یَجۡعَلۡ  کَیۡدَہُمۡ فِیۡ  تَضۡلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾‏‎ ‎وَّ  اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ  طَیۡرًا  اَبَابِیۡلَ ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎تَرۡمِیۡہِمۡ  بِحِجَارَۃٍ  مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ﴿۵﴾‏‎ ‎‎ ‎

کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ﴿۱﴾ کیا اس نے ان لوگوں کی ساری تدبیریں بے کار نہیں کر دی تھیں ﴿۲﴾ اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیئے تھے ﴿۳﴾ جو ان پر پتّھر کی کنکریاں پھینک رہے تھے ﴿۴﴾ چناں چہ اس نے (اللہ تعالیٰ نے) انہیں کھائے بھوسہ کی طرح کر ڈالا ﴿۵﴾

تفسیر

اصحاب فیل کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً پچاس یا پچپن روز قبل پیش آیا تھا۔ قرآنِ کریم ایک پوری سورت – سورۂ فیل – اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل تفسیر، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اصحاب فیل کا واقعہ خاتم الانبیاء، نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری کی نشانی اور تمہید کے طور پر پیش آیا تھا۔ نیز قریش کی غیبی مدد اور حفاظت بھی اسی لئے ہوئی کہ آخری پیغمبر کا ظہور اسی قبیلہ (قریش) میں ہونے والا تھا، ورنہ اگر دینی اعتبار سے دیکھا جائے، تو حبشہ اور یمن کے بادشاہوں اور حاکموں کے عقائد، مکہ مکرّمہ کے قریش کے عقائد سے بہتر تھے؛ کیونکہ وہ لوگ اہل کتاب تھے، جب کہ قریش بت پرست تھے۔

معجزہ اور ارہاص

جو خرق عادت چیزیں نبی کے ہاتھوں پر نبوّت کے بعد ظاہر ہوتی ہیں ان کو معجزہ کہا جاتا ہے اور جو خرقِ عادت  چیزیں نبی کے ہاتھوں پر نبوّت سے پہلے ظاہر ہوتی ہیں ان کو ”ارہاص“ کہا جاتا ہے، اسی طرح نبی کی آمد سے پہلے جو خرق عادت نشانی دنیا میں ظاہر ہوتی ہے جو نبی کے آنے پر دلالت کرتی ہے اس نشانی کو بھی ارہاص کہا جاتا ہے۔ ارہاص لغت میں سنگِ بنیاد کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ غیر معمولی واقعہ اور نشانی جو نمودار ہوئی وہ نبّوت کے ظہور کی بنیاد اور تمہید کہا جاتا ہے۔

ابرہہ کا اہل مکہ پر حملہ اور اس کے بعد اس کی تباہی وبربادی کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  ولادت باسعادت سے قبل ماہ محرّم میں پیش آیا تھا۔

اصحاب فیل کا مختصر واقعہ

ابرہہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی جانب سے یمن کا حاکم تھا، جب اس نے دیکھا کہ عرب کے تمام لوگ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ مکرّمہ جاتے ہیں، تو اس کے دل میں حسد پیدا ہوا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ عیسائی مذہب کے نام ایک عالیشان کنیسہ (گرجاگھر) بنائے، جو ہیرے جواہرات سے مرصع اور مزیّن ہو؛ تاکہ یمن کے عرب لوگ مکّہ مکرّمہ کا سفرنہ کریں اور بیت اللہ کی جگہ اس کے گرجا کا طواف کریں۔

لہذا اس نے یمن کے دارالسلطنت ”صنعاء“ میں ایک انتہائی پُر شکوہ اور عالیشان کنیسہ تعمیر کیا اور لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ اب کوئی مکہ مکرّمہ نہ جائے اور بیت اللہ کے بجائے اس کے تعمیر کردہ کنیسہ میں عبادت کرے اور اس کا طواف کرے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابرہہ نے کنیسہ کی تزئین کاری کے لئے آرائش اور سجاوٹ کی زیادہ تر چیزیں بلقیس کے محل سے منگوائی تھیں۔

جب عربوں کو نو تعمیر کردہ کنیسہ کی خبر پہونچی، تو وہ آگ بگولہ ہو گئے اور ان میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی، یہاں تک کہ قبیلۂ کنانہ کا ایک شخص کنیسہ میں داخل ہوا اور اس میں پاخانہ کر کے بھاگ گیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ عرب کے کچھ نوجوانوں نے اس کے قرب وجوار میں آگ جلائی ہوئی تھی۔ ایک چنگاری ہوا سے اُڑ کر اس گرجا میں لگ گئی اور گرجا جل کر خاک ہو گیا۔ ابرہہ کو جوں ہی یہ معلوم ہوا اس نے غصّہ میں آ کر قسم کھائی کہ ”میں خانۂ کعبہ کو منہدم اور مسمار کر کے ہی سانس لوں گا۔“

 چنانچہ اس نے اسی بُرے ارادے سے مکّہ مکرّمہ پر فوج کشی کی۔ راستہ میں جس عرب کے قبیلہ نے مزاحمت کی اس کو تہ تیغ کیا؛ یہاں تک کہ مکہ مکرّمہ پہنچا۔ لشکر اور ہاتھی بھی ہمراہ تھے۔ اطراف مکہ میں اہل مکّہ کے مویشی چرتے تھے۔ ابرہہ کے لشکر نے وہ مویشی پکڑے جن میں دو سو اونٹ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جدّ امجد عبد المطلب کے بھی تھے۔ اس وقت قریش کے سردار اورخانۂ کعبہ کے متولّی عبد المطلب تھے جب ان کو ابرہہ کی خبر ہوئی، تو  قریش کو جمع کر کے کہا کہ گھبراؤ مت مکہ کو خالی کردو۔ خانۂ کعبہ کو کوئی منہدم نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرےگا۔

 بعد ازاں عبدالمطلب چند رؤساء قریش کو لے کر ابرہہ سے ملنے گئے۔ اندر اطلاع کرائی۔ ابرہہ نے عبد المطلب کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ حق جلّ جلالہ نے عبد المطلب کو بے مثال حسن وجمال اور عجیب عظمت و ہیبت اور وقار ودبدبہ عطا فرمایا تھا۔ جس کو دیکھ کر ہر شخص مرعوب ہو جاتا تھا۔ ابرہہ عبد المطلب کو دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور نہایت اکرام اور احترام کے ساتھ پیش آیا۔ یہ تو مناسب نہ سمجھا کہ کسی کو اپنے تخت پر اپنی برابر بٹھلائے۔ البتہ ان کے اعزاز واکرام میں یہ کیا کہ خود تخت سے اُتر کر فرش پر ان کو اپنے ساتھ بٹھایا۔

 گفتگو کے دوران عبد المطلب نے اپنے اونٹوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے متعجب ہو کر کہا بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارے میں کلام کیا اور خانۂ کعبہ جو تمہارے آباؤ اجداد کا دین اور مذہب ہے اس کے بارے میں تم نے کوئی حرف نہیں کہا۔ عبد المطلب نے جواب دیا ”میں اونٹوں کا مالک ہوں اس لئے میں نے اونٹوں کا سوال کیا اور کعبہ کا خدا مالک ہے وہ خود اپنے گھر کو بچائےگا۔“ ابرہہ نے کچھ سکوت کے بعد عبد المطلب کے اونٹوں کے واپس کرنے کا حکم دیا۔

عبد المطلب اپنے اونٹ لے کر واپس آ گئے اور قریش کو حکم دیا کہ مکہ خالی کر دیں اور تمام اونٹوں کو خانۂ کعبہ کی نذر کر دیا اور چند آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر خانۂ کعبہ کے دروازے پر حاضر ہوئے کہ سب گڑ گڑا کر دعائیں  مانگیں عبد المطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے:

لَاهُمَّ أَنَّ الْمَرْءَ يَمْــَنعْ … رَحْلَهُ فَامْنَعْ رِحَالَك

اے اللہ !بندہ اپنی جگہ کی حفاظت کرتا ہے پس تو اپنے مکان کی حفاظت فرما

وَانْصُرْ عَلٰى آلِ الصَّلِيْــب … وَعَابِدِيْهِ الْيَوْمَ آلَك

اور اہل صلیب اور صلیب کے پرستاروں کے مقابلہ میں اپنے اہل کی مدد فرما

لَا يَغْلِبَنَّ صَلِيْبُهُمْ … وَمِحَالُهُمْ أَبَدًا مِحَالَك

ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر کبھی غالب نہیں آ سکتی

جَرُّوا جَمِيْعَ بِلَادِهِمْ … وَالْفِيْلَ كَيْ يَسْبُوْا عِيَالَك

لشکر اور ہاتھی چڑھا کر لائے ہیں؛ تاکہ تیرے عیال کو قید کریں

عَمَدوا حِمَاك بِكَيْدِهِمْ … جَهْلًا وَمَا رَقَبُوْا جَلَالَك

تیرے حرم کی بربادی کا قصد کر کے آئے ہیں۔ جہالت کی بنا پر یہ قصد کیا ہے تیری عظمت اور جلال کا خیال نہیں کیا۔

عبد المطلب دعا سے فارغ ہو کر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے۔

دوسرے دن صبح کو  ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی محمود نامی کو آگے چلنے کے  لئے تیار کیا۔ نفیل بن حبیب جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا تھا اس وقت وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کا کان پکڑ کر کہنے لگے تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا؛ کیونکہ تو اللہ کے بلد امین (محفوظ شہر) میں ہے یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا، ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانا، چلانا چاہا؛ لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا، اس کو بڑے بڑے آہنی تبروں سے مارا گیا، اس کی بھی پروا نہ کی، اس کی ناک میں آنکڑا لوہے کا ڈال دیا پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا، اس وقت ان لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا، تو فوراً کھڑا ہو گیا پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرّمہ کی طرف چلانے لگے تو پھر بیٹھ گیا۔

قدرتِ حق جلّ شانہ کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن  میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کی برابر تھیں۔ ایک چونچ میں دو پنجوں میں۔ واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لئے آتے دکھائی دیئے اور فوراً ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکریں جو ہر ایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو ریوالور کی گولی بھی نہیں کر سکتی کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔ یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ گھڑے ہوئے، صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکر ی سے ہلاک ہوا، اور لشکر کے سب آدمی اسی موقع پر ہلاک نہیں ہوئے؛ بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے ان سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مر مر کر گِر گئے۔

الغرض اس طرح ابرہہ کا لشکر تباہ وبرباد ہوا اور صفحۂ ہستی سے اس کا نام ونشان مٹ گیا۔

اور ابرہہ کا حشر یہ ہوا کہ اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا اور پورے بدن سے پیپ اور خون بہنے لگا بالآخر صنعاء پہونچ کر اس کا سینہ پھٹ پڑا اور وہ مر گیا۔

اَلَمۡ  تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ  بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾‏‎ ‎اَلَمۡ  یَجۡعَلۡ  کَیۡدَہُمۡ فِیۡ  تَضۡلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾‏‎ ‎وَّ  اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ  طَیۡرًا  اَبَابِیۡلَ ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎تَرۡمِیۡہِمۡ  بِحِجَارَۃٍ  مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ﴿۵﴾‏‎ ‎‎ ‎

کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ﴿۱﴾ کیا اس نے ان لوگوں کی ساری تدبیریں بے کار نہیں کر دی تھیں ﴿۲﴾ اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیئے تھے ﴿۳﴾ جو ان پر پتّھر کی کنکریاں پھینک رہے تھے ﴿۴﴾ چناں چہ اس نے (اللہ تعالیٰ نے) انہیں کھائے بھوسہ کی طرح کر ڈالا ﴿۵﴾

اصحاب فیل کے واقعہ سے ہمیں مندرجہ ذیل سبق اور نصحتیں حاصل ہوتی ہیں:

(۱) حسد اور جلن انتہائی مہلک بیماری ہے۔ اس کی وجہ سے آپس میں مقابلہ آرائی، نزاع اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ جس آدمی کے دل میں حسد کی بیماری ہوتی ہے وہ ہمہ وقت غصّہ میں رہتا ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ حسد اور جلن ہی کی وجہ سے ابرہہ نے خانۂ کعبہ کے مقابلہ میں ایک نقلی ”کعبہ“ بنایا اور بالآخر حسد اور جلن کی وجہ سے ابرہہ ہلاک وبرباد ہوا۔

(۲) غصّہ میں انسان اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے اور ایسے فیصلے کرتا ہے جو بعد میں اس کے لئے باعث ندامت وشرمندگی بنتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابرہہ نے غصّہ میں آ کر خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا؛ لیکن اس فیصلہ کی وجہ سے وہ نامراد وناکام ہوا اور انتہائی بُری موت مرا۔

(۳) اگر انسان اپنے دل سے انانیّت نہیں نکالتا ہے، تو وہ بہت سی پریشانیوں اور مشکلات سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر ابرہہ کے اندر انانیت نہ ہوتی تو وہ حسد نہیں کرتا اور اپنا نقلی کعبہ نہیں بناتا اور نتیجًۃ وہ ہلاکت وبربادی سے محفوظ رہتا۔

(۴) ہر قسم کی قدرت اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہی قادر مطلق ہیں۔ ہر چیز ان کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اگر وہ چاہے، تو ہاتھی جیسے عظیم الجثہ اور دیو ہیکل جانور کو چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ہلاک کر سکتے ہیں؛ لہذا کسی بھی دنیوی طاقت وقوّت سے مرعوب نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، تو کوئی بھی طاقت اس کو ذرّہ برابر نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔

(۵) اللہ سبحانہ وتعالیٰ مطیع وفرماں برادر بندوں کی غیبی مدد فرماتے ہیں۔

(۶) دین کا محافظ اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ وہ جس سے چاہتے ہیں اپنے دین کی حفاظت کے لئے خدمت لیتے ہیں؛ لہذا  مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ دین کی خدمت کے لئے ایسے اسباب اور ذرائع اختیار نہ کریں جو ناجائز ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں۔

(۷) ہمیں ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ دین کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کے محتاج نہیں ہیں؛ لہذا ہمیں صرف ان اسباب کو اختیار کرنا چاہیئے جو جائز ہیں پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیئے کہ وہ اچھا نتیجہ ظاہر فرما دیں۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …