باغِ محبّت(بیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

امّت مسلمہ کی اصلاح کی فکر

حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ایک شخص ملک شام سے حضرت عمر رضی الله عنہ کی ملاقات کے لئے مدینہ منوّرہ آتا تھا۔ یہ شامی شخص مدینہ منوّرہ میں کچھ وقت قیام کرتا تھا اور حضرت عمر رضی الله عنہ کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے استفادہ کرتا تھا۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ شامی شخص لمبے عرصے تک حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا، تو حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس کی فکر لاحق ہوئی، تو فاروق اعظم رضی الله عنہ نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین اس کا حال نہ پوچھیئے، وہ تو شراب میں بدمست رہنے لگا۔ فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اپنے کاتب کو بلایا اور کہا کہ یہ خط لکھو۔

من عمر بن الخطاب إلى فلان بن فلان. سلام عليك فانى احمد اليك الله الذی لا اله إلا هو غافر الذنب وقابل التوب، شديد العقاب، ذي الطول، لا إله إلا هو إليه المصير

”من جانب عمر بن الخطاب بنام فلاں بن فلاں۔ سلام علیک، اس کے بعد میں تمہارے لئے اس الله کی حمد پیش کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت عذاب والا، بڑی قدرت والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“

پھر حاضرین مجلس سے کہا کہ سب مل کر اس کے لئے دعا کرو کہ الله تعالی اس کے قلب کو پھیر دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے، فاروق اعظم رضی الله عنہ نے جس قاصد کے ہاتھ یہ خط بھیجا تھا اس کو ہدایت کر دی تھی کہ یہ خط اس کو اس وقت تک نہ دے جب تک کہ وہ نشہ سے ہوش میں نہ آئے اور کسی دوسرے کے حوالے نہ کرے۔

جب اس کے پاس حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا یہ خط پہنچا اور اس نے پڑھا، تو بار بار ان کلمات کو پڑھتا اور غور کرتا رہا کہ اس میں مجھے سزا سے ڈرایا بھی گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پھر رونے لگا اور شراب خوری سے باز آ گیا۔ تو ایسی توبہ کی کہ پھر اس کے پاس نہ گیا۔

جب حضرت عمر کو یہ اطلاع پہونچی کہ وہ شخص آپ کے خط سے بہت زیادہ متأثر ہوا ہے، تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم بھی اسی طرح کیا کرو۔ جب تم کسی کو دیکھو کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے، تو اس کی اصلاح کی فکر کرو اور الله تعالیٰ سے دعا کرو کہ الله تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت فرمائیں۔ اور تم اس کے خلاف شیطان کے مددگار مت بنو۔ (تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر)

اس قصےّ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے دل میں مسلمانوں کی اصلاح کی کتنی زیادہ فکر تھی اور وہ لوگوں کے بارے میں کس قدر متفکّر رہتے تھے۔ اسی بے چینی اور فکر نے ان کو اس شخص کی طرف خط لکھنے اور اس کے لئے دعا کرنے پر آمادہ کیا۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم کو یہ فکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس سے حاصل ہوئی؛ کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو لوگوں کی اصلاح کی فکر ہر وقت رہتی تھی؛ لہذا ہر مسلمان کو اپنے بھائی کی اسی طرح فکر کرنی چاہیئے اور اس بات پر توجّہ دینی چاہیئے کہ اس کی دینی حالت سدھر جائے۔

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ دو بھائیوں کی مثال دونوں ہاتھوں جیسی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کو صاف کرتا ہے اور دو ایمان والے جب بھی آپس میں ملتے ہیں، تو الله تعالیٰ ان میں سے ایک کو دوسرے سے فائدہ پہونچاتے ہیں۔ (اتحاف السادۃ المتقین)

واضح رہے کہ دائمی سعادت اور فوز وفلاح سے سرفراز ہونے کے لئے اسلام کے تمام احکامات کی پیروی ضروری ہے اور اسلام کے سارے احکامات کی پیروی کے لئے مندرجہ ذیل امور کو انجام دینا ضروری ہے:

(۱) الله تعالیٰ اور ان کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور دین کے تمام ارکان پر ایمان لانا

(۲) سارے اوامر کو بجا لانا اور تمام منہیاّت سے بچنا

(۳) مسلمانوں کو اچھائی کا حکم دینا اور مسلمانوں کے لئے بھلائی چاہنا

(٤) آپس میں صبر کی تلقین کرنا اور اسلام کے احکامات کی پابندی میں دوسروں کی مدد کرنا خصوصاً مصیبتوں اور پریشانیوں کے وقت۔

یہ چار باتیں سورۂ عصر میں مذکور ہیں۔

الله تعالیٰ ہم سب کو دین کے احکام پر چلنے اور آپس میں خیر اور بھلائی کی تاکید کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17412


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …