باغِ محبّت (انیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

امانت داری-محاسبہ کا خوف

الله سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہیں: بعض نعمتیں جسمانی ہیں اور بعض نعمتیں روحانی ہیں۔ کبھی ایک نعمت ایسی ہوتی بے کہ وہ بے شمار نعمتوں کو شامل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ ایک نعمت ہے؛ مگر آنکھ کے ذریعہ انسان ہزاروں نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ جسمانی نعمتوں کا حال ہے۔

جس طرح الله تعالیٰ نے انسان کو بے شمار جسمانی نعمتوں سے نوازا ہے اسی طرح الله تعالیٰ نے انسان کو بے شمار روحانی نعمتوں سے بھی نوازا ہے: ان میں ایک بڑی نعمت ”امانت داری“ کی نعمت ہے۔ ”امانت داری“ یہ ہے کہ ہر وقت انسان کے دل میں اس بات کا خوف ہو کہ مجھے ہر قول وفعل کا الله تعالیٰ کے سامنے حساب دینا ہوگا۔

”امانت داری“ انتہائی عظیم الشان اور بلند صفت ہے، متعدد احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جب ہمارے سامنے خطبہ دیتے، تو بہت کم ایسا ہوتا کہ آپ یہ حدیث ذکر نہ فرماتے تھے:

لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له (مسند أحمد، الرقم: ١٢٥٦٧)

جو شخص امانت دار نہ ہو، اس کا ایمان (کامل )نہیں اور جو شخص عہد شکنی کرے، اس کا دین(کامل) نہیں ۔

امانت داری کی نعمت اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے ذریعہ سے بہت سی روحانی اور جسمانی نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں؛ اس نعمت سے انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور اس میں نورانیت پیدا ہوتی ہے؛ یہاں تک کہ اس کے اندر حق وباطل کو سمجھنے اور نفع اور نقصان دہ چیزوں کے درمیان تمییز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، خلاصہ بات یہ ہے کہ امانت داری کی صفت انسان کو زندگی کے تمام شعبوں میں تقوی کی ترغیب دیتی ہے اور اس کو اعمال صالحہ پر ابھارتی ہے۔

جس طرح ظاہری آنکھ کی بینائی سے انسان سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے اسی طرح امانت داری کی صفت جو دل کی باطنی بینائی ہے اس سے انسان دین کے دو نور (قرآن وسنّت کے نور) سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص نابینا ہے تو وہ دنیا کی دلکش مناظر اور حسن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص باطنی طور پر نابینا ہے اور اس کا دل امانت داری کی صفت سے خالی ہے وہ اسلام کے دونوں نور یعنی قرآن وسنّت کے نور سے استفادہ حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

امانت داری کی اہمیّت سمجھنے کے لئے حضرت حذیفہ رضی الله عنہ کی وہ حدیث کافی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے دو باتیں بیان کیں: ان میں سے ایک میں نے دیکھ لی اور دوسری بات کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری، پھر انہوں نے امانت کے نور سے قرآن وحدیث کو اچھی طرح سمجھا پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے یہ بات بیان کی کہ امانت کس طرح اٹھالی جائےگی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی ایک نیند سوئےگا پھر امانت اس کے دل سے نکال لی جائےگی (گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے امانت اس کے دل سے نکال لی جائےگی پھر وہ حقوق الله اور حقوق العباد سے غافل ہو جائےگا)۔

پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ایک دوسرے سے معاملہ کریں گے؛ مگر شاید ہی کوئی امانت ادا کرنے والا ہوگا؛یہاں تک کہ لوگوں میں کہا جائےگا: بے شک فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی آدمی کے بارے میں کہاجائےگا: کتنا عقل مند ہے، کس قدر ہوشیار ہے، کتنا مضبوط ہے، جبکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان کا نور نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری)

جب امانت داری کا تذکرہ ہوتا ہے، تو عام طور پر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اگر کوئی شخص اس کے پاس مال رکھے، تو وہ اس کی حفاظت کرے؛ لیکن شریعت میں امانت داری کا صرف یہ مفہوم نہیں ہے؛ بلکہ امانت داری زندگی کے تمام امور کو شامل ہے۔ خواہ ان کا تعلق حقوق الله سے ہو یا حقوق العباد سے یا وہ انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے؛ لہذا ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنی انفرادی زندگی اور اپنی اجتماعی زندگی میں اس بات کا خوف رکھے کہ اس کو حقوق الله اور حقوق العباد کا الله تعالیٰ کے سامنے حساب دینا ہوگا۔

موجودہ دور میں اگر ہر شخص اپنی زندگی میں امانت داری قائم کرے، تو پوری دنیا میں چین وسکون عام ہوگا، تو پھر میاں، بیوی، عزیز واقارب اور پڑوسیوں کے درمیان جھگڑا نہیں ہوگا اسی طرح ملازموں اور مالکوں، اساتذہ ومہتممین اور تجارت میں شریک افراد کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگا اور معالجین، وُکلاء اور عمارت تعمیر کرنے والے آپس میں نہیں جھگڑیں گے۔ اسی طرح میراث کی تقسیم کے وقت کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائےگی، کیونکہ ہر شخص دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا فکرمند ہوگا اور الله تعالیٰ سے ڈرےگا اور اس کے دل میں حساب وکتاب کا خوف ہوگا۔

اس سلسلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا ایک واقعہ کتابوں میں منقول ہے جو ان کے دل کی امانت داری کی صفت پر روشنی ڈالتا ہے۔

ایک مجوسی پر امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا کچھ مال قرض تھا۔ تو امام ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے قرض کی وصولی کے لئے اس مجوسی کے گھر کی طرف گئے۔ جب اس کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو اتفاق سے امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے جوتے پر نجاست لگ گئی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے نجاست صاف کرنے کی غرض سے اپنے جوتے کو جھاڑا، تو امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے اس عمل کی وجہ سے کچھ نجاست اُڑ کر مجوسی کی دیوار کو لگ گئی۔ یہ دیکھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ الله پریشان ہو گئے اور فرمایا کہ اگر میں نجاست کو ایسے ہی رہنے دوں تو اس سے اُس مجوسی کی دیوار خراب ہو رہی ہے اور اگر میں اسے صاف کرتا ہوں تو دیوار کی مٹی بھی اکھڑے گی۔

اسی پریشانی کے عالم میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک لونڈی باہر نکلی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے اس سے فرمایا: اپنے مالک سے کہو کہ ابو حنیفہ دروازے پر موجود ہے۔ وہ مجوسی امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے پاس آیا اور اس نے یہ گمان کیا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے قرض کا مطالبہ کریں گے، اس لئے اس نے آتے ہی معذرت شروع کر دی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے اس سے فرمایا: مجھے یہاں تو قرض سے بھی بڑا معاملہ در پیش ہے، پھر امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے دیوار پر نجاست لگنے والا واقعہ بتایا اور پوچھا کہ اب دیوار صاف کرنے کی کیا صورت ہے؟ یہ سن کر امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی امانت داری کی صفت سے متأثر ہو کر اس مجوسی نے عرض کیا : دیوار کو چھوڑیئے، پہلے آپ مجھے پاک کیجیے اور مجھے اسلام میں داخل کر دیجئے۔ چناں چہ اس نے اسی وقت کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ (تفسیر کبیر)

الله تعالیٰ ہمیں زندگی کے تمام امور میں ”امانت داری“ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17374


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …