باغِ محبّت (سترہویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام میں نجات کی رسّی

اگر کوئی انسان پانی میں ڈوب رہا ہو، تو وہ اپنے آپ کو بچانے کی پوری کوشش کرےگا اور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے انتھک کوششیں لگائےگا۔ یہاں تک کہ اگر اس کو ایک معمولی سی رسّی بھی مل جائے، تو وہ اس کو مضبوطی سے تھام لےگا؛ تاکہ وہ اس کے سہارے سے پانی سے نکل کر اپنی زندگی کو بچا سکےگا۔

اسی طرح ایک مسلمان جب اس دنیا میں رہتا یے، تو اس کو طرح طرح کے فتنوں کا سامنا ہوگا، جو اس کے دین و ایمان کو برباد کرنے والے ہیں، تو مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ سے سوال کرے کہ ان فتنوں اور مفاسد سے ”میں کس طرح سے نجات حاصل کروں گا اور کیسے میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کروں گا؟“ یعنی دین اسلام میں وہ کون سی رسّی ہے جس کو پکڑ کر مسلمان اپنے دین وایمان کی حفاظت کر سکےگا اور اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کی ہلاکت وبربادی سے بچا سکےگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام میں نجات وحفاظت کی رسّی یہ ہے کہ الله تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لے۔ اسی میں دین ودنیا کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کا حل پوشیدہ ہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے: جو بندہ اپنا تعلق الله تعالیٰ کے ساتھ درست کرے، الله تعالیٰ اس کے تمام معاملات لوگوں کے ساتھ درست فرمائیں گے۔ (البدایہ والنہایہ)

مزید یہ کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی اور سعادت مندی الله تبارک وتعالیٰ سے تعلق جوڑنے میں ہے۔ جو بندہ اپنا تعلق الله تعالیٰ کے ساتھ مضبوط کرے اور اپنے دل کو الله تعالیٰ کی محبّت سے منوّر کرے، تو الله تعالیٰ اپنی خصوصی مدد سے اس کی امداد فرمائیں گے اور اس کی زندگی کے تمام امور میں اس کو کامیابی عطا فرمائیں گے، یہاں تک کہ مخلوق کے ساتھ بھی اس کا تعلق خوشگوار ہو جائےگا اور لوگ اس سے محبّت کرنے لگیں گے۔

الله تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی مثال سورج کے مانند کی سی ہے۔ جیسے سورج پوری دنیا کو روشن ومنوّر کرتا ہے، اسی طرح الله تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے سے انسان کی پوری زندگی روشن اور منوّر ہو جائےگی۔

الله تعالیٰ سے تعلق کیسے مضبوط کرے؟

ہر آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا تعلق الله تعالیٰ کے ساتھ تین چیزوں کے ذریعہ مضبوط کرے: (۱) نماز کی پابندی کرنا (۲) گناہوں سے اجتناب کرنا (۳) مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا خاص طور پر اہل وعیال اور عزیز واقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔

نماز کی پابندی

حدیث شریف میں نماز کو دین کا ستون بتایا گیا ہے؛ لہذا جب تک انسان نماز پر پابندی نہ کرے وہ اپنا تعلق الله تعالیٰ کے ساتھ مضبوط نہیں کر سکےگا اور نہ ہی وہ الله تعالیٰ کی خصوصی محبّت ورحمت حاصل کر سکےگا۔

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیئے کہ مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی فرض نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں؛ کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی یہی دلی آرزو تھی کہ اپنی امّت کے مرد مسجد میں نماز پڑھے اور اسی بات پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مبارک حدیث میں اس بات کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ مسجد میں نماز ادا کرنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا شوق حد درجہ کو پہنچا ہوا تھا، یہاں تک کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم مرض الموت میں تھے اور آپ نہایت بیمار تھے، تو اسی حالت میں بھی مرض کی شدّت کے باوجود دو صحابیوں کا سہارا لے کر زمین پر اپنے پیروں کو گھسیٹتے ہوئے مسجد پہنچ کر نماز ادا کرتے۔

ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہیں ہوتے، تو میں عشاء کی نماز قائم کرتا اور نو جوانوں کی ایک جماعت کو حکم دیتا کہ وہ ان لوگوں کے گھروں کو جلا دیں جو اپنی فرض نمازوں کو اپنے گھروں میں (بلا عذر) ادا کرتے ہیں اور مسجد نہیں آتے ہیں۔ (صحیح مسلم، مسند احمد)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ قیامت کے روز الله تبارک وتعالیٰ سے اسلام کی حالت میں ملاقات کرے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی پانچ وقت کی فرض نمازوں کو (مسجد میں) پابندی کے ساتھ ادا کرے جہاں ان کے لئے اذان دی جاتی ہے۔ (سنن نسائی)

گناہوں سے اجتناب

الله تعالیٰ سے محبت اور تعلق مضبوط کرنے کے لئے گناہوں سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے۔ ہمارے اکابرین میں سے حضرت مولانا یوسف بنّوری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہر دور میں مختلف قسم کے فتنے نمودار ہوئے؛ لیکن بنیادی طور پر دو قسم کے فتنے انسان کے دین کے لئے نہایت نقصان دہ ہیں: (۱) عملی فتنے (۲) علمی فتنے۔

عملی فتنے

حضرت رحمہ الله نے پھر بتایا کہ عملی فتنے واقع ہوتے ہیں جب لوگ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں مثلاً: زنا اور شراب کی کثرت، سود خوری اور رشوت ستانی، بے حیائی وعریانی، رقص وسرور۔ جب انسان ان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے، تو پھر اس کے بعد وہ ظلم، کذب وافتراء، بد عہدی وبد معاملگی وغیرہ میں مبتلا ہوتا ہے، جس کے اثرات نماز، روزہ، زکاۃ، حج وغیرہ سارے ہی اعمال صالحہ پر پڑتے ہیں، جتنی ان برائیوں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اتنی ہی ان نیکیوں میں ضعف اور کمی آجاتی ہے۔

علمی فتنے

علمی فتنے اس وقت ہوتے ہیں جب لوگ اپنے دین کو غیر مستند ذرائع سے حاصل کرتے ہیں مثلاً: ٹیلی ویژن، یو ٹیوب اور فیس بوک وغیرہ؛ کیونکہ جب آدمی ان ذرائع سے علم حاصل کرتا ہے، تو اس کی ذہنی سوچ اور فہم اپنے دین کے بارے میں بگڑ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ غلط راستہ پر چلنے لگتا ہے اور دین کو غلط انداز میں سمجھتا ہے۔ پھر اسی کے مطابق اس سے بُرے اعمال صادر ہوتے ہیں۔

مخلوق کے ساتھ حسن سلوک

ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوق خدا کے ساتھ احسان والا معاملہ کرے اور ان کے حقوق پورا کرے؛ کیوں کہ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک الله تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر انسان الله تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کرے، تو اس کو کبھی بھی الله تعالیٰ کی محبّت اور رحمت نہیں ملےگی۔

حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل اور الله تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دو اعمال ہیں:

(۱) دین سے متعلق تمام چیزوں کی تعظیم اور احترام کرنا جیسے قرآن کریم، اذان،مسجد، مؤذن وغیرہ کی تعظیم اور احترام کرنا۔

(۲) مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اکثر لوگ ان دونوں اعمال ہی کی وجہ سے جنّت میں داخل ہوں گے۔

اسلام نے ہر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے؛ لیکن اسلام نے اہل خانہ اور عزیز واقارب کو مزید حقوق دیئے؛ لہذا انسان پر زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عزیز واقارب کے ساتھ بھلائی والا معاملہ کرے، چنانچہ ایک حدیث شریف میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی یہ پسند کرے کہ اس کی روزی میں وُسعت کر دی جائے اور اس کے مرنے کے بعد اس کو یاد رکھا جائے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق جوڑے (صلہ رحمی کرے)۔ (بخاری شریف)

لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بعض لوگ آج کل وبائی مرض کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برت رہے ہیں۔ چنانچہ وہ بیماروں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال نہیں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ تنہائی میں رنجیدہ اور غمگین ہوتے ہیں اور زندگی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس قسم کے رویّہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام تو ہمیں ہر حال میں شفقت و ہمدردی اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ جو شخص الله تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا طالب ہے، اسے چاہئے کہ وہ پانچ وقت کی نمازیں باجماعت پابندی کے ساتھ مسجد میں ادا کرے، تمام گناہوں سے اجتناب کرے اور مخلوق کے ساتھ شفقت و ہم دردی کے ساتھ پیش آئے اور ان کے حقوق ادا کرے۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17308


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …