عن أبي بن كعب رضي الله عنه قال: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك فكم أجعل لك من صلاتي؟ فقال: ما شئت قال: قلت: الربع قال: ما شئت فإن زدت فهو خير لك قلت: النصف قال: ما شئت فإن زدت فهو خير لك قال: قلت: فالثلثين قال: ما شئت فإن زدت فهو خير لك قلت: أجعل لك صلاتي كلها قال: إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك (سنن الترمذي الرقم 2457: وقال هذا حديث حسن)
حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہا: اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! میں آپ پر بہت زیادہ درود بھیجنا چاہتا ہوں؛ لہذا میں اپنی دعا میں کتنا وقت آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم جتنا چاہو خاص کرو۔ میں نے عرض کیا: کیا میں دعا کا چوتھائی وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا: کیا میں دعا کا آدھا وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا: کیا میں دعا کا دو تہائی وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا: میں پوری دعا کا وقت آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کروں گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو تمہارے تمام ہموم وافکار کی کفایت کی جائےگی (یعنی الله تعالیٰ تمہارے تمام ہموم وافکار کو دور کریں گے) اور تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
نوٹ:- مذکورہ بالا حدیث کے مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل حدیث قدسی سے ہوتی ہے:
من شغله ذكري عن مسالتي أعطيته أفضل ما أعطي السائلين
جو شخص میرے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کر سکے، میں اس کو سوال کرنے والوں سے بہتر چیز عطا کروں گا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا آخری وقت
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جب وفات کا وقت قریب تھا، ان کی بیوی کہہ رہی تھیں: ہائے افسوس! تم جا رہے ہو اور وہ (حضرت بلال رضی اللہ عنہ) کہہ رہے تھے: کیسے مزے کی بات ہے، کیسے لطف کی بات ہے، کل کو دوستوں سے ملیں گے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں گے، ان کے ساتھیوں سے ملیں گے۔ (فضائل صدقات، حصہ دوم، ص ۴۷۲)
بخیل کون ہے؟
شرف المصطفی میں نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سحری کے وقت حضرت عائشہ رضی الله عنہا کسی چیز کی سلائی کر رہی تھیں۔
سلائی کرتے وقت ان کی سوئی گم ہو گئی اور چراغ بجھ گیا۔ اسی دوران رسول الله صلی الله علیہ وسلم کمرے میں تشریف لائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پورا کمرہ روشن ہو گیا؛ چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اسی روشنی میں اپنی سوئی تلاش کر لی۔
تو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ کا مبارک چہرہ کس قدر روشن ہے!
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لیے، جو مجھے قیامت میں نہ دیکھے (یعنی میرے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ جہنم میں بھیج دیا جائےگا؛ اس لیے وہ مجھے نہیں دیکھےگا)۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے پوچھا: وہ شخص کون ہے، جو آپ کو (قیامت میں) نہیں دیکھ سکےگا؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بخیل۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے پھر پوچھا: بخیل سے کون سا آدمی مراد ہے؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (بخیل سے وہ آدمی مراد ہے)، جو میرا نام سنے اور مجھ پر درود نہ بھیجے (یعنی وہ اپنے نبی کی تعظیم وتکریم نہیں کرتا ہے، ان کی اتباع نہیں کرتا ہے اور ان کا نام سن کر ان پر درود نہیں بھیجتا ہے؛ اس لیے اس کو بخیل کہا گیا ہے)۔ (القول البدیع، ص ۳۱۳ ؛ فضائلِ درود، ص ۱۲۵)
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=5717 , http://ihyaauddeen.co.za/?p=7518